ٹھنڈی ہوا ناک سائی نسز، گلے ، لیر نکس ، برونکائی اور پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے
فرزانہ چودھری
ماہر امراض کان، ناک اور گلا پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف تارڑ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 95ء میں پاکستان میں بچوں کے کان، ناک اور گلے کے امراض کی سپیشلیٹی کو متعارف کروایا۔ وہ بچوں کی ای این ٹی کے پاکستان کے پہلے اور واحد ماہرڈاکٹر ہیں۔ چلڈرن ہسپتال میں تعیناتی کے دوران انہوں نے گلے اور سانس کی نالیوں کی مختلف بیماریوں کا لیزر کے ذریعے تقریباً آٹھ سوبچوں کا علاج کیا اور تین سے چار ہزار بچوں کی سانس کی نالیوں سے فارن باڈی نکال کے ان کو صحت یابی سے ہمکنار کیا انہوں نے گونگے بہرے بچوں کا علاج بشمولcochlear implant کیا۔ سردیوں کی شدت کس حدناک کان اور گلے کو متاثر کر کے انسان کو بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں؟ اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف تاڑر نے بتایا’’ زکام، ٹھنڈ یاسردی لگ جانا ایک ایسی عمومی بیماری ہے جس کا شکار کوئی بھی فرد کسی بھی موسم میں باآسانی ہوسکتا ہے یہ وائرس سے لگنے والا ایک متعدی مرض ہے جس کے جراثیم نہایت تیزی سے ایک متاثرہ شخص کی سانسوں سے دوسرے صحت مند فرد کی سانسوں میں سرایت کرکے اسے بھی اس متعدی مرض کا شکار بنا دیتا ہے۔ اللہ پاک نے تمام انسانوں کے جسم کے اندر کا درجہ حرارت 37ڈگری سینٹی گریڈ رکھا ہے۔اس لئے اگر ہم اپنے جسم کے اندر کا مقررہ درجہ حرارت بر قرار رکھتے ہیں تو جسم کے تمام عضو صحت مند اور توانا رہتے ہیں اور بہترین پرفارم کرتے ہیں، موسم کی شدت اندرونی درجہ حرارت کو متاثر کرے تو انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جیسے شدیدگرمی میں انسان سستی کا ہلی محسوس کرتا ہے وہ ٹھیک کام نہیں کر پا رہا ہوتا ہے۔ آرام دہ ماحول میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اس لیے جب آب وہوا کادرجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جائے یا بہت زیادہ کم ہوجائے تو طبعیت خراب ہوتی ہے۔ کان،ناک اور گلے کا درجہ حرارت سے براہ راست تعلق ہے کیونکہ ناک سانس لینے کا ذریعہ ہے جو ہمیشہ کھلی رہتی ہے چھوٹے بچے ایک منٹ میں 20 سے30مرتبہ جبکہ بڑے ایک منٹ میں 12سے 16 مرتبہسانسں لیتے ہیں، ٹھنڈی ہوا ناک ،سائی نسز ، گلے ، لیرنکس ، برونکائی پھر پھیپھڑوں کو متاثر کر تی ہے۔ اس لئے لوگ سردیوں میں نزلہ ، زکام بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ آجکل شدیدسردی ہے اور درجہ حرارت 8,7ڈگری سینٹی گریڈ چل رہا ہے۔ اس درجہ حرارت پر عام طورپر نزلہ زکام اور بخارکے ساتھ کان،ناک اور گلے کے مسائل شروع ہوتے ہیں۔ناک میں قدرتی طورپر بیکٹیریااور وائرس ہوتے ہیں۔وائرس کولڈ درجہ حرارت میںبڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ناک سے پتلا پانی بہنے لگتا ہے، مریض کو تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور بخار ہونے لگتا ہے اور طبیعت میں ایک ناخوشگواراحساس محسوس ہونے لگتا ہے۔ جب پتلا پانی ناک سے بہتا ہے تو بیکٹیریا بھی بڑھنے لگتے ہیں تو ناک میں ڈسچارج اکٹھا ہوتا ہے اور بیکٹیریا کی انفیکشن ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے جس سے گلے ، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کا انفیکشن ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو دوسروں کی نسبت اس کا اثر زیادہ ہو سکتا ہے اور کچھ کو نسبتاً کم ، لیکن اثرات سب پر ضرور ہوتے ہیں۔ وائرس زکام کے تین فیز ہوتے ہیں۔ مریض تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد ناک بہنہ شروع ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی گلہ خراب اور بخار ہوجاتا ہے۔جس میں تین سے پانچ روز کے بعد عموماً بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے۔ مگر بیکٹیریا انفکیشن میں مرض خودبخود ٹھیک نہیں ہوگا اس کا علاج کروانا پڑے گا۔ اس میں نزلہ گاڑھااور بد بو دارپیلے یا سبز رنگ کاہوتا ہے۔ ہلکا گاڑھا نزلہ ٹھنڈ کی وجہ سے نہیں الرجی سے ہوتاہے ۔ پرہیز کرنے سے یہ نزلہ زکام ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ناک کی سوزش کے اسباب نزلہ زکام،جراثیم کا اثر ، گردوغبار وغیرہ ہے ۔ ناک کی جھلی متورم اور سرخ ہونا، ناک سے مسلسل پانی بہنا اور چھینکیں آنا اس کی علامات ہیں ‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف تاڑر نے بتایا ’’ سردی میں درجہ حرارت میں کمی اور ماحولیاتی آلودگی کا مکسچر ناک، کان اور گلے کی بیماریوں کی وجہ بنتاہے۔آلودگی کے ذرات اور ٹھنڈ کے اثرات سے انفلوئنزا جراثیم خاص کر سانس کی نالیوں کو متاثر کرتے ہیںاور سنگین صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انفلوئنزا کے جراثیمcilia کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ سیلیا جسم سےsecretion نکالنے والا سسٹم ہے سیلیابیٹ کر کے secretion کو اوپر کی طرف دھکیل کر جسم سے باہر نکالتے ہیں۔ انفلوئنزا جراثیم سے سیلیا Damage ہونے سے secretion جسم کے اندر اکٹھی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ اگر جسم میں کسی بیماری کی وجہ سے کمزوری ہو، بڑھاپا ہو، خون کی کمی ہو، کینسر کامریض ہو ،دمہ یا دل کامریض ہو، اگر انفلوئنزا جراثیم سے ان کے سیلیا متاثر ہو جائیں تو ان کا سیکریشن جسم سے باہر نہیں نکلتا ہے جس سے چسٹ انفیکشن، نمونیہ وغیرہ ہو جاتا ہے۔ نمونیہ تب ہی ٹھیک ہوتا ہے جب secretion جسم سے باہر نکل جاتی ہے۔جو لوگ کم درجہ حرارت(ٹھنڈ) سے متاثر ہوتے ہیں ان میں چھوٹے بچے جن کا اندرونی سسٹم پوری طرح میچور نہ ہوا ہو۔ ناک کے پیچھےadenoids( جو ناک کو پیچھے سے بند کرتے ہیں) ٹھنڈ سے متاثر ہوںتو وہ بچے اور بڑے جن کا گلا پہلے سے خراب رہتا ہے ان میں لیرنکس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا رسک بڑھ جاتا ہے۔ دمہ کی بیماری میں مبتلا مریضوں کو ٹھنڈ میں دمے کا اٹیک ہو سکتا ہے۔ سائینسز ،سانس کی نالیوں کی بیماریوں، ناک کی ہڈی کا ٹیڑھاپن اور ناک کے غدود کے مریض جوپہلے سے الرجی کا شکار ہوں ،بوڑھے (جن قوت مدافعت کم ہوتی ہے)، کینسر، گلہڑ ، ہیپاٹائٹس یا دل کی بیماریوں کے مریض، ان بیماریوں کی وجہ سے جسمانی طور پر کمزور ہوجاتے ہیں اس لیے ان پر موسم کی شدت کے اثرات باآسانی ہوتے ہیں‘‘ ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف تارڑ نے بتایا’’جب ہم سانس لیتے ہیں تو ماحولیاتی آلودگی سائینسزپر جمع ہوتی رہتی ہے جس کے ری ایکشن سے کئی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ آلودہ فضا ناک سے گزرکر گلے میں جاتی ہے تو لیرنکس اور برونکائٹس پرابلم پیدا کرتے ہوئے پھیپھڑوں میں جاتی ہے۔ جس سے کھانسی آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ قدرتی سسٹم کی وجہ سے جسم کے اندر جانے والے زہریلے ذرات چھینکوں اور کھانسی کے ذریعے باہر نکل آتے ہیں۔ آلودہ فضا سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوتی ہے تو ناک کے قدرتی غدود بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں جس سے ناک بندہوجاتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔ہوا میں شامل زہریلی چیزیں ناک کے اندر جمع ہوتی ہیں تو ان میں کیمیکلز کے ردعمل سے خرابیاں پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں اور ناک کی نالیاں تنگ ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس سے ناک اورسائینسز کی بیماریاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ اگران کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو ناک، گلے ، سائینسز اور پھیپھڑوں کی بیماریاں بڑھتی رہتی ہیں۔ آلودہ ہوا کے زہریلے ذرات لیرنکس پر جمع ہوتے ہیں جہاںسے آواز پیدا ہوتی ہے ،وہاںری ایکشن ہونے سے آواز بیٹھ جاتی ہے۔ جو لوگ بہت زیادہ آلودہ فضا میں رہتے ہیں ان کی آواز بھی بیٹھی سی لگتی ہے اگر اس کا بروقت علاج نہ ہوتو اوربہت سی بیماریاں نمودارہوتی ہیں ۔سگریٹ اور مشنیری کا دھواں لیرنکس کی بیماریاں پیدا کرنے میں ایک خاص کردار ادا کرتا ہے۔ اسی طرح پھیپھڑوں میں آلودہ ہوا کے مسلسل جانے سے پھیپھڑوں کے سیلز تنگ ہو جانے سے برونکائٹس اوردمہ ہو سکتا ہے۔ آلودہ ہوا سے گردوںاور جگر کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آلودہ ہوا میں ان گنت مضر صحت عناصر جن میں گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں، گردوغبار، پولن، لیڈ ، آرسینک، کاپر، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن ما نو آکسائیڈ ،نائٹرس آکسائیڈاور بے شمار کیمیکلز شامل ہیں ۔ ہوا میں موجودنائٹرس آکسائیڈاور سلفر ڈائی اکسائیڈ پر سورج کی شعاعیں پڑنے سے ان کے اثرات اور زیادہ نقصان دہ ہو جاتے ہیں، سلفر ڈائی آکسائیڈ فضا کی نمی ملنے سے سلفورک ایسڈ بن جاتا ہے اور اگر بارش ہو جائے تو ایسڈ رین((acid rain ہونے کا امکان ہو جاتا ہے جس سے تباہی کا رسک بڑھ جاتا ہے ۔ یہ تمام مضر صحت عناصر لاہور شہر کی فضا میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں کیونکہ لاہور کا فیکٹری ایریا بھی آبادیوں میں شامل ہوچکا ہے۔ ہوا میں آلودگی نارمل رینج سے کئی گنازیادہ ہونے سے سردیوں میں ٹھنڈ زیادہ ہونے سے ناک اور گلے کی بیماریوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتی ہے ۔ٹھنڈ کے اثرات سے سب سے پہلے ناک متاثر ہوتا۔ جس سے ناک میںکھجلی ہوتی ہے اور پھر دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جو لوگ پہلے سے بیمار ہیں ان کو موسم کے اثرات سے ضرور بچنا چاہئے۔ ٹھنڈ میںزیادہ دیر نہ رہیں باہر نکلتے وقت ناک کو ماسک سے کور کریں۔ ہیٹر کا استعمال کم سے کم کریں۔nebulizer کے طریقے سے سٹیم لیں یا سادہ پانی کی بھاپ لیں، بھاپ لینے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ الیکٹرک کیٹل میں ابلتے ہوئے پانی کی بھاپ جو کیٹل کی نالی سے نکلتی ہے وہاں سے ناک کے ذریعے بھاپ لیں۔ بھاپ سانس کی نالیوں کو موسچرائز کرتی ہے۔ دوسرا ناک اور سائینسز میں جمع کیمیکلز کے ذرات کھانسی، چھینک سے باہر نکل جاتے ہیں۔ دن میں دو سے تین مرتبہ بھاپ لیں۔ اس عمل سے آپ ٹھنڈ اور ماحولیاتی آلودگی کے مضر اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ملک ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہوچکے ہیں۔ پنجاب حکومت نے اس کے بارے میں سفارشات کی ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔کھانے پینے کی چیزوں میں ایسے موقع پر نیو ٹریشنل ڈرنک اور کھانا زیادہ مفید ہوتا ہے جو نارمل نیچرل فوڈ کے قریب قریب ہو۔جیسے دودھ، جوسز، دودھ کی پروڈکٹ وغیرہ، نیچرل فوڈ کے استعمال سے آپ کی قوت مدافعت بہتر رہے گی۔ اگر طبیعت خراب تو متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔