کابل+ واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) افغان طالبان نے خبردار کیا ہے کہ ان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہوں نے جہاد بند کر دیا ہے یا پھر کٹھ پتلی کرزئی حکومت کے آئین کو تسلیم کر لیا ہے طالبان نے یہ بات ایسے موقع پر کہی جب امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر کرزئی سے ملاقات کیلئے ایک سینئر عہدیدار کو کابل بھجوا رہا ہے جو یہ معلوم کریں گے کہ آیا افغان صدر طالبان کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کے فیصلے سے متفق ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے مطابق اگر صدر کرزئی تیار ہوئے تو مذاکرات چند ہفتوں میں شروع ہو سکتے ہیں۔ طالبان نے جو قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کا اعلان کر چکے ہیں اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کیلئے دنیا کے ساتھ مفاہمت تک پہنچنے کیلئے اپنی سیاسی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ادھر امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل جلد شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا، افغانستان و پاکستان کے لئے امریکی خصوصی مندوب مارک گراس مین آئندہ ہفتے افغان صدر حامد کرزئی سے مل کر ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مےڈےا رپورٹس کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر کرزئی نے اوباما انتظامیہ کو مذاکرات شروع کرنے کا کہا تو یہ عمل آگے بڑھے گا ورنہ اسے شروع نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ ایک جمہوری آزاد اور پرامن افغانستان چاہتا ہے۔ امریکہ افغان عوام کے بہتر مستقبل کیلئے کام کر رہا ہے۔ ایران کی جانب سے جارحانہ رویئے اور دھمکیوں پر تشویش ہے۔ امریکی ایلچی مارک گراس مین اگلے ہفتے افغانستان اور قطر کا دورہ کریں گے۔ دورے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا جائزہ لیا جائے گا۔
طالبان
طالبان