احتجاج اور دھرنوں سے مزید عدم استحکام آئے گا

ایک طرف حکومت سازی کے لیے مختلف جماعتوں کے آپس میں رابطے جاری ہیں تو دوسری جانب کچھ سیاسی جماعتیں عام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگا کر دھرنے دے رہی ہیں اور احتجاج کررہی ہیں۔ احتجاج کرنے والی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام بھی شامل ہے جس کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا راشد محمود سومرو نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ الیکشن مکمل مسترد کرتے ہیں۔ تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔ دھاندلی میں ملوث ریٹرننگ افسران (آر اوز) اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران (ڈی آر اوز) کو معطل کیا جائے۔ پاکستان تحریک انصاف بھی انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے راولپنڈی پولیس نے پی ٹی آئی احتجاج کو تھانوں کی سطح پر روکنے کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا گیا ہے کہ جس تھانے کی حدود میں مظاہرین جمع ہوں یا ریلی نکالیں وہیں سختی سے روکا جائے۔
علاوہ ازیں، چمن میں حالیہ ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پی بی 51 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے کارکنوں کا درہ کوڑک پر چار روز احتجاج جاری ہے۔ پی بی 51 چمن کے نتائج میں آر او کی جانب سے مبینہ طور پر تبدیلی کرنے پر اے این پی کے کارکنوں نے احتجاج کے دوران قومی شاہراہ کو چوتھے روز بھی ٹریفک کے لیے مکمل بند رکھا جس سے شہریوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ درہ کوڑک کے مقام پر اہم شاہراہ کی بندش سے چمن کا مواصلاتی رابطہ ملک بھر سے منقطع ہوچکا ہے۔ ادھر، گوجرانوالہ میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے زیر اہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
کراچی میں بھی جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مختلف علاقوں میں احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کو ملک میں عوامی مینڈیٹ کی توہین کی گئی، یہ الیکشن کرانا نہیں چاہتے تھے اس لیے موبائل سروسز بند کردیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کے عوام اپنی رائے دینے کے لیے گھروں سے باہر نکلے۔ اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کا مشترکہ احتجاج اور دھرنا جاری رہا، دھرنے کے باعث سکرنڈ بائی پاس کے دونوں اطراف گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔  اسی طرح دھرنے کے باعث جمالی بائی باس کے اطراف بھی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں اور مسافر پریشان رہے۔
دوسری جانب، پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے حکومت سازی کے لیے پہلا باضابطہ رابطہ کیا ہے۔ نون لیگ کے صدر محمد شہباز شریف وفد کے ہمراہ بلاول ہاؤس پہنچ گئے جہاں انھوں نے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو سے حکومت سازی پر بات چیت کی۔ ملاقات میں پی پی پی کی قیادت نے نون لیگ کے وفدکو بتایا کہ حکومت سازی میں تعاون کے حوالے سے آپ کی پیشکش پر مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں تبادلہ خیال ہوگا۔ ملاقات سے متعلق جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کے مطابق، مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے مابین سیاسی تعاون پر اصولی اتفاق رائے ہوا۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی صورتحال اور مستقبل میں سیاسی تعاون پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔
حکومت سازی کے سلسلے میں شہباز شریف نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے 24 گھنٹوں میں تیسری بار رابطہ کیا اور وفاق میں حکومت سازی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں لیا۔ مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مجلس عاملہ اور امراء کے اجلاس میں مشاورت کے لیے وقت مانگ لیا۔ توقع کی جارہی ہے کہ جے یو آئی (ف) کا مذکورہ اجلاس بدھ کو ہوگا جس میں مشاورت کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
ادھر، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ہمارے شہریوں کے عظیم مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے اور اسے کھل کر تسلیم کرنا چاہیے۔ ووٹ کے لیے باہر نکلنے پر خواتین اور نوجوان مبارک باد کے مستحق ہیں۔ سماجی رابطے کے ذریعے ایکس پر جاری اپنے بیان میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں پاکستان کے عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، خاص طور پر خواتین کو جو شدید مشکلات کے باوجود بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے ووٹ دیا، نوجوان بھی بالخصوص داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ووٹنگ کے عمل میں پرامن طریقے سے حصہ لے کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا جمہوریت پر یقین، ولولہ اور تعمیر ملت کا عزم ان شاء للہ تاریخ رقم کرے گا۔ 
جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں یا انتخابی نتائج پر دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں وہ صرف ان حلقوں میں دھاندلی کی بات کررہی ہیں جہاں ان کے امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، گویا وہ جماعتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ جہاں ان کے امیدوار جیت گئے ہیں وہاں انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں یہ ایک عام بات ہے کہ کوئی بھی ہارنے والا اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا اور دھاندلی کا شور مچانا شروع کردیتا ہے۔ اگر کہیں واقعی دھاندلی ہوئی بھی ہے تو اس کے بارے میں شکایت کے لیے باقاعدہ پلیٹ فارمز موجود ہیں، سڑکوں کو بند کردینا یا دفاتر پر چڑھائی کردینا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ دھرنوں اور احتجاج سے مسائل مزید بگڑیں گے جس سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ الیکشن کمیشن سمیت مختلف قومی ادارے انتخابات کرا کے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرچکے ہیں، اب یہ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنی شکایات کے ازالے کے لیے احتجاج اور دھرنوں کی بجائے قانونی راستہ اختیار کرے اور ملک کو انتشار کی طرف نہ جانے دے۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا قاضی شمس الدین

ڈاکٹر ضیاء الحق قمرآپ 1916ء مطابق 1334ھ کو کوٹ نجیب اللہ، ہری پور ہزارہ میں مولانا فیروز الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ایک ...