دیہی خواتین اور بنیادی سہولتیں

سندھ کے ضلع کمبر شہداد کوٹ میں واقع جان محمد لاغاری کا چھوٹا سا گاؤں نہ ہونے کے برابر سڑک سے شہر میرو خان سے منسلک ہے۔ یہ علاقہ زرخیز ہے۔ سڑک کے اطراف مکئی کے کھیت ہیں اور کئی مچھلی کے تلاب سورج کی تپش میں چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر اِس زمین اور اِس کے کھیتوں سے وابسطہ افراد کی کہانی زیادہ حوصلہ آفزا نہیں۔ یہاں پر کو ئی ہسپتال نہیں، نا ہی کوئی با ضابطہ سکول۔ یہاں لوگ بے زمین کسان ہیں جو کہ اتنی سکت نہیں رکھتے کے قریب واقعہ شہر میرو خان جا کر حکومت کی کوئی بھی خدباتِ عامہ حاصل کر سکے۔اِس دور دراز گاؤں میں پلی بڑھی سمیرا اپنے آپ کو خوش نصیب کہتی ہیں کیونکہ وہ چند ایسے لوگوں میں شامل ہیں جس نے پرائمری لیول/ ابتدائی مکتب تک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ معلم رضا محمد جمالی کو یہاں کے ایک مقامی زمیندار نے چند کمرے دیے تاکہ وہا ں جماعت/کلاس قائم کر سکے۔ ہر روز گاؤں کے لڑکے اور لڑکیاں یہاں بنیادی ریاضی،سندھی اور اْردو بولنے اور لکھنے کی مشقیں کیا کرتے تھے۔سمیرا بتاتی ہیں کے ماسٹر جمالی ایک محنتی استاد تھے اور جو ہر روز اِن کے گاؤں آتے اور اِس بات کو یقینی بناتے کے اْن کی جماعت میں ہر اِیک طالب اپنی پرائمری کی تعلیم مکمل کرے۔ مگر ایسا کچھ سال کے لیے ہی ہو سکا۔ اْستاد جمالی کی تقرری کسی اور سکول میں کرا دی گئی اور اْن کی جگہ آنے والے اْستاد کبھی نظر ہی نہیں آتے تھے۔سولہ سال بعد، سمیرا جو کہ اب خود شادی شدہ ہے اپنے 5بچوں کی بنیادی تعلیم کو لے کر پریشان رہتی ہیں۔ ایک کارآمد سکول کے بغیر یہاں کی پوری نئی نسل کو اْن کے ایک بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے، تعلیم کے حق سے۔ جب بچے سکول نہیں جائیں گے تو وہ گلیوں محلوں میں سارا دن کھیل کر بْری عادات ہی اپنائیں گے۔ یہاں کے بچے نا صرف خود لڑ پڑتے ہیں بلکہ کئی بار اپنی ماؤں کو بھی لڑائی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اِس سے یہاں کی پوری برادری پہ بْرا اثر پڑتا ہے۔ثمینہ بتاتی ہیں کہ یہاں کے چند افراد ہی اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرت کے لیے میرو خان بھیج سکتے ہیں مگر اِیک بڑی آبادی کرائے کو لے کر ہی روتی رہتی ہے۔ اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے پاس تعلیم کے اخراجات اْتھانے کی استطاعت ہے وہ اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے لیے شہر بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ تین سال پہلے جان محمد لغاری کی خواتین نے کمیونٹی تنظیمیں قائم کی۔ یہ عمل یورپین یونین (EU) کے تعاون SUCCESS پراجیکٹ سے ہی ممکن ہوا۔ SUCCESS پراجیکٹ Sindh Rural Support Organization (SRSO) جو کہ Rural Support Pragrammes Network کا حصہ ہے، نے ہی مدد فراہم کی۔RSP's کے ماڈل پر مبنی SUCCESS پراجیکٹ اِس بات پر یقین رکھتی ہے کہ برادر ی کے سب سے غریب افراد بھی یہ سکت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے اِن لوگوں کو اپنی تنظیموں میں اپنے آپ کو منظم کرنا ہو گا۔ ۔ SUCCESSحکومتِ سندھ کو صونہ وسیع میں غربت میں کمی لانے اور مقامی ترقیاتی پالیسیاں بنانے اور اْن کو لاگو کرنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔سمیرا کے گاؤں کی خواتیں نے جب برادری، گاؤں اور مقامی سطح پر تنظیمیں بنائی تو اْنہوں نے فعال سکول کی غیر موجودگی کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ Local Support Organization (LSO) کی رہنا رکن کے طور پر سمیرا نے اے سی کو کال کرنے کا ارادہ کیا۔ سمیرا نے کمیشنر صاحب کو بتایا کے تقرر کردہ اساتزہ سکول آتے ہی نہیں اور حکومت کے قائم کردہ سکول غفلت کا شکار ہیں۔ سمیرا کے اصرار پر کمیشنر نے اِن کے گاؤں آنے کی حامی بھر لی۔اگلے ہفتے ہی اے سی اور دیگر حکومتی ملا زمین نے سمیرا کے گاؤں کا رْخ کیا۔ سمیرا کے گاؤں میں کئی سال بعد کسی حکومتی نمائیندگان نے آنے کا فیصلہ کیا۔ سمیرا کو اِس بات کی بہت خوشی تھی کہ اْس کی اِیک کال سے ہی کمیشنر صاحب نے اْن کے گائوں کا وزٹ کیا۔ سمیرا کو اپنی اِس کاوش پر فخر ہے اور کہتی ہے کے اْسے اپنا آپ اہم محسوس ہو رہا ہے۔ اے سی نے مقامی شعبہِ تعلم سے یہاں کے لیے اْستاد مقرر کرنے کے لیے احکامات جاری کیے۔ سمیرا نے شعبہ ِ تعلیم سے گزارش کی کہ اگر وہ اْن کے پرانے اْستاد جمالی صاحب کو یہاں کے لیے تقر ر کر دیں۔سو جمالی صاحب واپس آئے اور اِس بار اپنے طلبہ کے بچوں کو پڑھانے کے لیے آئے کیونکہ سولہ سال کا وقت گزر چکا تھا۔ سمیرا اور اْن کے پرانے اْستاد جمالی صاحب کے لیے یہ اِ یک پْر اْمید دن تھا، اْستاد جمالی اب تقریباََ 60 برس کے ہو گئے تھے اور مزاق سے کہتے ’’تو مجھے اِس پرانے گاؤں میں واپس بْلا لیا ہے‘‘۔ماسٹر جمالی نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے کلاسز شروع کر دیں اور ساتھ ہی بہت سارے طلباء نے سکول اآنا شروع کر دیا۔ آج سکول میں ٹوٹل 135طلبہ ہیں جن میں سے 72 لڑکیاں ہیں۔ ماسٹر جمالی تو ریٹائیر ہو گئے مگر اْن کے جانے کے بعد بھی آج تک یہاں کے لوگ اِس اِس بات کو یقینی بناتے ہین کے سکول چلتا رہے اور کلاسز / جماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو۔پہلے سال ممبران نے سکول ٹیچر کی مدد سے شعبہ تعلیم کو سکول کے لیے نئی بلڈنگ فراہم کرنے کے لیے خط لکھا۔ اِس درخواست پر فوری عمل ہوا اور سکول کی نئی عمارت پر کام شروع ہو گیا۔ اب اِس نئے سکول میں کلاسز ہوتی ہیں جس میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے علیحدہ علیحدہ کلاسز ہیں۔ سمیرا صبح سویرے طلبائ کے جوک در جوک سکول کی طرف جاتے دیکھ کر بے حد خوش ہوتی ہے۔ سمیرا کہتی ہے کہ اْس جیسی قصبے کی اور خواتین کی مدد سے یہ سب کرنے میں اْسے بہت فخر محسوس ہوتا ہے اور قصبے کے مرد بھی اپنے کام کروانے کے غرض سے اْس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ چند ہی میل کے فاصلے پر واقع یونین کاؤنسل سلارا میں پروین اور دیگر برادری کی تنظیم کی خوا تین نے اپنی مقامی حکومت کواْنہیں ہینڈ پمپس دینے کے لیے راضی کر لیا۔پروین آج یاد کرتی ہے وہ دن جب وہ سارا سارا دن پانی کی ایک ایک بوند کو ترستی رہتی تھی۔ پروین کو خاوند اْجلت پر مزدوری کیا کرتا تھا اور اتنے پیسے نہیں جوڑ سکتا تھا کے اپنے گھر پر ہینڈ پمپ لگا سکے۔ جب پیسے ہوتے تو وہ پانی خرید لیا کرتے تھے۔ اور جب پیسے نہیں ہوتے تو پانی کے حصول کے لیے پروین اور اْس کے بچے ساتھ میں ہی واقع مسجد کے باہر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے۔ پروین کہتی ہے کے پانی ہی زندگی ہے پانی نہ ہو تو کھانا پکانا مشکل، کپڑے دھونا اور واش روم جیسے کام رہ جاتے۔پروین کو حوصلہافزائی تب ملی جب یو سی عبدلجبار احمد نے اِسکی پکار پر لبیک کہا۔ پروین کی درخواست پر اِس کے گاؤں میں کئی ہینڈ پمپس لگائے گئے۔پانی کی مسلسل فراہمی سے پرویں نے اپنے گھر میں بیت ا لخلا تعمیر کر لیا۔ ویکسینیشن ڈرائیوز ترتییب دی ہیں۔ چھوٹے تجارت کے لیے پیسے اکھٹے کرنے جیسے کئی کام کیے ہیں۔ پروین کہتی ہیں کے پہلے وہ صرف اپنے خاندان کے بارے میں سوچتی تھیں مگر اب پوری برادری کے بارے میں سو چتی ہیں۔