سزا معطلی‘ ضمانت پر رہائی‘ ہائیکورٹ نے نوازشریف کی پہلی درخواست واپسی کی استدعا منظور کر لی
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویثرن بنچ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی پہلی درخواست واپس لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے طبی بنیادوں پر دائر دوسری درخواست کی سماعت پیر 18 فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواست کی سماعت گزشتہ روز عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویثرن بنچ نے کی۔ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے۔ جسٹس عامر فاروق نے ان سے استفسار کیا کہ پہلے کون سی درخواست سنی جائے ، پہلی درخواست کی واپسی یا طبی وجوہات کی بناء پر ضمانت کی درخواست کی سماعت کریں۔ اس پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے پہلی درخواست کی واپسی سے متعلق متفرق درخواست پر دلائل پیش کروں گا۔ اس موقع پر انہوں نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کے حوالے پیش کئے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ جب پہلی درخواست دائر کی تو کیا میڈیکل گراو نڈ موجود تھے؟ کیا میڈیکل گراو نڈ پر نئی درخواست دائرکی جاسکتی ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے کہاکہ ہماری پہلی سزا معطلی درخواست کے بعد میڈیکل کی صورتحال بنی ، سزا معطلی کی پہلی درخواست کے وقت صحت کی یہ صورتحال نہیں تھی ، نئے گراو نڈز پر ضمانت کی درخواست دائر کرنے پر کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ، نواز شریف کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے طبی بنیادوں پر درخواست دائر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ جنوری کو سزا معطلی کی پہلی درخواست دائر کی گئی ، نواز شریف کو پہلی بار 15 جنوری کو دن کی تکلیف ہوئی۔ اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے تین فیصلوں میں گائید لائن دے رکھی ہے ، سپریم کورٹ نے بتا رکھا ہے کہ نیب مقدمات میں ضمانت کیسے ہو گی ، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا ایک ہی معاملے پر دو درخواستیں دائر کی جا سکتی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک درخواست پہلے دائر ہوئی تو اسی میں ترمیم کی اجازت دی جا سکتی ہے ، قانون کے مطابق پہلی درخواست میں ہی ترمیم کر کے طبی وجوہات شامل کی جا سکتی تھیں ، جو گراو نڈز نئی درخواست میں لئے گئے ہیں وہ پہلے بھی ان کے پاس موجود تھے ، ضمانت پر رہائی کی نئی درخواست میں ’’میڈیکل گراو نڈ نمبر تین‘‘ جولائی 2003 سے موجود ہے ، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں پہلے ہی حدود طے کر چکی ہے ، جسٹس کھوسہ کے فیصلے کے مطابق نیب مقدمات میں رہائی صرف غیر معمولی حالات میں مل سکتی ہے۔ نیب آرڈیننس 1999 کے تحت ہارڈشپ کے کیس میں رہائی مل سکتی ہے ، یہ ضمانت کی پٹیشنز ہیں آئینی پٹیشنز نہیں ہیں۔ اس موقع پرڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفرنے کہا کہ مناسب ہوتا اگر یہ پہلی درخواست واپس لے کر بعد میں نئی درخواست دائر کرتے۔ عدالت نے وکلائ کے دلائل سننے کے بعد العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی پہلی درخواست واپس لینے کی استدعا منظور کرلی۔ بعد ازاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے طبی بنیادوں پر دائر درخواست سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہاکہ غیرمعمولی حالات اور ہارڈ شپ گراونڈ پر ضمانت دی جاتی ہے۔ جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا کہ کیا میڈیکل گراونڈ بھی ہارڈ شپ کے زمرے میں آتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ مقدمات میں تاخیر کی وجہ سے بھی ضمانت مل جاتی ہے۔ اس موقع پر جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کہ کیا میڈیکل ریکارڈ میڈیکل بورڈ نے تجویز کیا ہے؟ خواجہ حارث نے کہاکہ چاروں میڈیکل بورڈز کی ریکمنڈیشن ہے۔ اس پر جہانزیب بھروانہ نے کہاکہ چاروں میڈیکل رپورٹس ریکارڈ پر موجود نہیں ہیں ، 5 فروری تک جو میڈیکل رپورٹس دی گئی ہیں ہم ان تک محدود رہیں گے۔ اس پرجسٹس عامر فاروق نے کہاکہ ان کو شروع کرنے دیں آپ کو مخالفت کا موقع دیا جائے گا۔ عدالت نے استفسارکیاکہ کیا ہارڈ شپ میڈیکل کے علاوہ بھی ہو سکتی ہے؟ خواجہ حارث نے سعود عزیز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس کیس میں میڈیکل اور غیر معمولی حالات نہیں تھے پھر بھی ضمانت ہوئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ طبی بنیادوں پر سزا معطلی سے متعلق دلائل دیں۔ جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ جب عدالت تاخیر اور طبی بنیادوں پر ضمانت دیتی ہے تو قانونی تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ ہارڈشپ کچھ بھی ہو سکتا ہے تاخیر تو اس کا صرف فیکٹر ہو سکتا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہاکہ ہارڈ شپ تو کیس ٹو کیس منحصر کرتا ہے۔ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جب کوئی شخص جیل میں ہو اور مر رہا ہو تو میرٹ تو ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر تاخیر ہو تو میرٹ کو دیکھا جاتا ہے۔ چھ سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل سپیشل میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا کہا گیا تھا۔ اے ایف آئی سی کے دو ڈاکٹرز بورڈ میں شامل نہیں ہوئے۔ چار رکنی سپیشل میڈیکل بورڈ نے طبی معائنہ کے بعد اپنی سفارشات دیں۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ نواز شریف کو مسلسل نگرانی اور بعض اوقات ادویات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا مرحلہ تشخیص ، دوسرا مرحلہ مینجمنٹ اور تیسرا مرحلہ علاج کا ہے۔ نواز شریف صرف عارضہ قلب نہیں بلکہ ذیابیطس اور گردوں سمیت دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں۔ نواز شریف کو ایسے اسپتال میں رکھنے کی سفارش کی گئی جہاں ایک چھت کے نیچے تمام بیماریوں کے علاج کی سہولت میسر ہو۔ گردے کا مرض تیسرے مرحلے پر ہے۔ پانچویں اور آخری مرحلے پر ڈائلیسس کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ میڈیکل بورڈ نے بنیادی طور پر نواز شریف کو ہسپتال میں رکھنے کی سفارش کی ہے ، کیا یہ میڈیکل بورڈ کی حتمی سفارشات ہیں؟ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ نیب کی طرف سے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی درخواست ضمانت پر تحریری جواب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گرفتار مجرم نواز شریف کو دستیاب بہترین طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ نواز شریف طبی بنیادوں پر ضمانت کے حق دار نہیں ہیں اس لئے درخواست ضمانت مسترد کر دی جائے۔ نیب کایہ بھی کہناہے کہ میڈیکل گراو ¿نڈ پر نواز شریف کو ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پیر کو آئندہ سماعت پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔