پاکستان کے تمام صوبوں کی پولیس اگر جانفشائی، خلوص نیت، محکمانہ عزت و ناموس کا تحفظ کرنے کی ٹھان لے تو ہر قسم کے جرائم ختم کر سکتی ہے۔بدقسمتی ہے کہ وہ مجبور ، محکمانہ اور سیاسی مداخلت اور ذاتی مفادات میں پھنسی ہوئی ہے۔ذاتی حرص و ہوس لالچ طمع کے بھنور سے باہر نہیں آ رہی لیکن ساری فورس ایسی نہیں ایک بہت بڑی تعداد لائق، قابل اور ایماندار بھی ہے۔اب جو اچھے لوگ ہیں ان پر اعتماد کرنا ہو گا، ان کو حوصلہ دینا ہو گا اور آئے دن کی تبدیلیوں سے انہیں بچانا ہو گا۔پولیس رویہ میں آنے والی تبدیلیوں کے سلسلہ میں تشریح، صفائیوں، اور گواہیوں پر اگر نظر ڈالیں تو پاکستان بننے سے آج تک رہنے والے وزرا داخلہ اور وزرا اعلی کے آنے والے بیانات پر غور کریں ہر ایک یہ مژدہ سناتا ہے کہ ہم نے محکمہ کی شکل تبدیل کر دی ہے۔ پولیس ایک نئے روئیے، اچھے برتاؤ کے ساتھ عوام سے پیش آئے گی لیکن ڈھاک کے وہی تین پات چندرگپت موریا دور کے استاد رنگروٹوں کو وہی گھسی پٹی تربیت دے رہے ہیں۔ وہ آج کے دور کی کوئی تحقیق یا سائنسی طریقوں سے نابلد ہیں۔ وہ شاگردوں کو بس ایک ہی کلیہ بتاتے ہیں کہ "ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا"سیاسی لوگ اپنے مزموم مقاصد کیلئے پولیس کو استعمال کرتے ہیں جب سے IG قربان سے حکومت وقت نے انتخابات میں مدد لی اس وقت سے لیکر اب تک یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔قصور کا سانحہ ہی دیکھ لیجئے جب زینب کے واقع سے پہلے ہونے والے جنسی جرائم کے نتیجے میںپکڑے گئے ملزم نے سر عام اپنے جرم کا اعتراف کیا ۔ زینب کے حالیہ شرمناک واقع کے بعد ایک اینکر نے قصور پہنچ کر اس ظلم کا شکار ہونے والی بچیوں کے والدین کا انٹرویو کیا تو ایک والد کہہ رہے تھے ہماری بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے ملزم سے پولیس نے ہمیں ملوایا۔ وہ معافی مانگ رہا تھا کہ میں نادم ہوں۔ مجھے معاف کر دو۔والد نے کہا کہ جب میں نے اس سے بچی کے متعلق چند سوال کئے تو وہ جواب نہ دے سکا۔ تو مجھے شک ہوا کہ یہ اصلی مجرم نہیں۔ ازاں بعد دوران حراست حسب روایت، حسب دستور نشاندہی کیلئے لے جاتے وقت اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اس کا خون ناحق کس پر ہے… اور پھر فائل بند کر کے مبارکبادیں، شاباشی، انعام و اکرام اور ترقیاں مل گئیں۔ کتنے سفاک لوگ ہیں یہ جن کی نظر میں انسان کی نظر ایک تنکا جتنی بھی نہیں۔میڈیا کے شور شرابے کے بعد اب جے آئی ٹی کی رپورٹ پر دو ایس ایچ اوز کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس تشدد اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ ہاتھی بھی پکار پکار کر کہتا ہے کہ میں چوہا ہوں۔ میں چوہا ہوں۔آج جب بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان پولیس میںبھرتی ہو رہے ہیں حالات انہیں بددل کر دیتے ہیںاور وہ بھی لا پرواہ اور ہمدردی اور رحم سے عاری ہو جاتے ہیں۔ قانون سیکھنے کے لئے CPC، PPC اور پھر قوانین اور ضابطوں وغیرہ سے وہ کبھی روشنائی کی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ایک وقت تھا کہ پرانے تھانیدار ان قوانین کے ماہر ہوتے تھے ان کا کاٹا پانی نہیں مانگتا تھا اور ملزم اپنے انجام کو پہنچتے تھے۔کیس سے بری ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بد قسمتی سے آج کے کچھ پولیس افسران محنت اور شوق سے عاری ہیں۔انہوں نے ریٹارڈ پولیس افسران جن کو لکھاری کہا جاتا ہے اپنے ذاتی ملازم رکھے ہوتے ہیں۔ جنکا مقدمات میں اپنا کوئی Interest نہیں ہوتا۔ وہ نیم دلی سے کیس تیار کر دیتے ہیں۔اسکے باوجود پولیس والے کہتے ہیں کہ ہم تو ملزموں کو قانون کی گرفت میں لاتے ہیں لیکن عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔اس کے برعکس عدالتیں کیا کرتی ہیں۔کہاوت ہے کہ جسٹس کیانی بہت بے باک، دلیر، قابل رحم دل اور انصاف پسند جج تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے کسی قتل کے کیس میں ملزم کو سزائے موت سنائی تو ملزم کی ماں جسکا وہ اکلوتا بیٹا تھا عدالت میں چیخ اٹھی کہ میں نے تو آپ کے انصاف کی بڑی دھوم سنی تھی۔ آپ نے میرے بے گناہ بیٹے کو سزائے موت دے دی۔کہتے ہیں کہ کیانی صاحب نے عینک اتار کر میز پر رکھی اور مائی سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہیں کس نے کہا کہ ہم انصاف کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے جو فائلیں پیش ہوتی ہیں۔ ہم تو ان پر فیصلہ کرتے ہیں۔تو جناب اگر آپ فائل ٹھیک بنائیں گے۔ گواہ جعلی اور مقدمہ بوگس نہیں ہو گا تو عدالتیں کبھی کسی ملزم کو نہیں چھوڑیں گی۔ ضرورت ہے اخلاص محنت اور سچائی کی۔آج کسی بھی واقع کی پولیس رپورٹ کروانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں کیونکہ بڑے پویس افسران اپنی کاروائی اور اچھی پراگرس اگر س دکھانے کیلئے حکم دیتے ہیں کہ جرائم کم کرو جرائم تو کم نہیں ہوتے۔ البتہ ان کو کم دکھانے کیلئے رپورٹنگ بہت مشکل بنا دی جاتی ہے۔
ڈاکہ پڑجائے تو پویس زور دیتی ہے کہ چوری کا مقدمہ درج کرو، جنسی جرائم میں بھی نوے فیصد لوگ معاشرے میں رسوائی سے بچنے کیلئے پولیس میں رپورٹ درج کروانے کی بجائے خاموش ہو جاتے ہیں۔ہماری قوم میں تماش بینوں کی کمی نہیں جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار بھی نہیں وہ ملک کی عزت کو ایسے گھناؤنے پراپیگنڈے سے سرعام رسوا اور خراب کرتے ہیں۔ آپ دیکھئے سوشل میڈیا سنسی پھیلانے کیلئے قاتل عمران کو DPO کی فوٹو کے ساتھ جوڑ کر ان کی شخصیت کو مجرم بنا کر پیش کرتا رہا اور یوں اس شریف آدمی کو رسوا کرنے کی کوشش کی۔آج ضرورت ہے کہ افسران رات گئے دور دراز علاقوں میں قائم تھانوں پر بغیر اطلاع چھاپے ماریں وہاں آپ کی ملاقات مقامی خداؤں سے ہو گی۔ انکی رات کی زندگی عیاشیاں اور ظلم دیکھ کر بڑے پولیس آفیسر ہوتے ہوئے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔قماش بین کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو جذباتی بنا کر اچھالا جاتا ہے۔ قصور واقع کو ہی لیں پولیس کی کارکردگی پر وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں تالیاں بجنے پر شور مچ گیا یارو کی پولیس اتنی طعن و تشنیع کرتے ہیں کبھی کسی اچھے کام پر تعریف ہو جائے تو بری بات نہیں۔ کیا آپ نے کراچی میں نقیب کے والد کو احتجاجی دھرنے میں خود تالیاں بجاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہاں تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اب بات ہو جائے سندھ کے چنگیز خان کی۔ جو سالہا سال سے بڑے بڑے لوگوں کے حکم پر کی گئی وارداتوں کا رازدار کہا جاتا ہے۔ اور جیسے سنا گیا ہے 444 لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کر چکا ہے۔ اور اب نقیب کے ناجائز قتل پر خدا کی بے آواز لاٹھی کی زد میں آ گیا ہے۔ پولیس اگر چاہے تو مجرموں کو زمین کے نیچے سے نکال لاتی ہے لیکن پولیس سے اپنا پیٹی بھائی یہ خونخوارگوریلا قابو نہیں آ رہا۔ کیا یہ ممکن ہے آج کے دور میں وہ موبائل بھی استعمال کرے اور ٹریس نہ ہو۔ پریشانی والی بات اس کیس میں یہ ہے کہ یہ شخص سالہا سال سے بڑی شخصیات کا رازدار رکھا ہے اور تکمیل حکم میں اس نے جو ظلم کا بازار گرم کر رکھا لگتا ہے اس کا یوم حساب قریب آ گیا ہے۔آج دور آ گیا ہے پولیس کو عوام کے سامنے جوابدہ بنایا جائے اور سرکاری پولیس کے ساتھ ساتھ عوامی پویس بنائی جائے۔ محلوں گلیوں کے کمانڈر مقرر کئے جائیں۔ با وردی پولیس کی بجائے CID والوں کی تعداد کافی زیادہ کی جائے کیونکہ ناکے بے فائدہ ہیں۔ غلط لوگوں کے آگے ریکی کرنے والے پیچھے آنے والوں کو اطلاع کر کے ان کا راستہ بدلوا دیتے ہیں۔عدالتوں کچہریوں میں قتلوں سے بچنے کیلئے تھانوں میں مجسٹریٹ بٹھائے جائیں جو غیر معمولی کیسز کا سمری ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائے، خطرناک مجرموں اور لاگت بازی والوں کے کیسز جیلوں میں سنے جائیں۔پولیس کے بڑے افسران اب زمین پر آ جائیں اور زمینی حقائق جانیں۔ عوام سے نفرت کی بجائے ان سے میل ملاقات بڑھا کر عوام کا اعتماد حاصل کریں۔ ایسا نہ ہو کہ اگر DPO کی گاڑی کوئی قومی ہیرو بھی اوورٹیک کرے تو اسے تھانے کی ہوا کھانی پڑے۔آئی جی صاحبان سے ایک درخواست ہے کہ جیسے انگریز دور کے چاپلوسی اور قدم بوسی کرنے والوں کی پنجاب چیف کی کتاب ہے ایسے ہی تمام شہروں کے مجرموں کے ریکارڈ لیکر تمام جرائم پیشہ افراد کے نام، پتے ، فوٹو اور جرائم کی لسٹیں چھاپی جائیں تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔پولیس کی کارکردگی اس کی وکالت ہو اور نیک نامی کی دلیل۔ نہ کہ لیڈر کہتے پھریں کہ ہماری پولیس بہت مستعد ہے۔ جیسا کہ ایک رہنما بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمارے صوبے کی پولیس بہت مستعد ہے لیکن ایک اینکر نے مردان پہنچ کر یہ قلعی بھی کھول دی جب بچی کے والد اور دادا نے کہا کہ بچی کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی تو ہمیں ہی کہا گیا خود ڈھونڈو مل جائے گی تو ہمیں بھی اطلاع کر دینا۔خیر بقول بچی کے لواحقین کہ مرد اور خواتین نے علیحدہ علیحدہ گرپ بنا کر تلاش کی تو خواتین کو بچی کی لاش کماد کے کھیت سے مل گئی۔ پھر پولیس کو اطلاع کی تو انہوں نے کہا کہ لاش ہسپتال لے جاؤ۔ تو یہ پاکستان کی نمبر 1 کی دعوے دار پولیس کی اصل حقیقت ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38