پاکستان کا تعلیمی نظام
پاکستان میں تعلیم کا نظام ایک سوالیہ نشان ہے؟۔تعلیم کیا ہے؟،کیسی ہونی چاہئے؟،کسی پڑھے لکھے شخص نے تحریر لکھی اور دانشور کے پاس گیا تو دور اندیش دانا شخص نے تحریر پڑھی اور لکھنے والے کو کہا کہ آپ کو لکھنے سے بہتر پڑھنے کی ضرورت ہے۔آج پاکستان میں اسکول کے بچوں سے بہترہے کہ اساتذہ کی تعلیم اور تربیت کی جائے ۔تعلیم حاصل کرنا ڈگریاں حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ انسان علم حاصل کرے۔پاکستان میں جعلی ڈگریوں کی بہتات ہے،اگر انسان چند ڈگریوں سے ’’عالم‘‘ بن جائے تو چند لاکھ روپے سے ہر کوئی بن جائے،مگر علم دے کر عالم پیدا نہیں کرے گا بلکہ جاہل پیدا کرے گا۔پاکستان میں تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کمرشیلائیزڈ ہو گئی ،اسکول+ کالج+ یونیورسٹی تک کمرشل ازم کا شکار ہیں۔لاکھوں کے اشتہارات میڈیا میں صرف تعلیمی اداروں میں داخلوں کے ہوتے ہیں۔پاکستان 70 سالوں کے بعد بھی انگریزوں کے چھوڑے ہوئے تعلیمی نظام کو لے کر چل رہاہے۔آج بھی اسلام آباد کے ماڈل اسکولوں میں جہاں 15 سالوں کی ملازمت کے بعد پرائمری ٹیچر بھی 1 لاکھ روپیہ تنخواہ وصول کرتے ہیں،مگر جن نو نہالوں کو پرائمری کی سطح پر Creative تعلیم دینی چاہئے،کتابوں اور بیگز سے 5 سے10 سال کے بچے جھکے کندھوں کے ساتھ خوف اور دہشت کی علامت بن کر اسکول جاتے ہیں۔صبح ماں اور باپ کی ڈانٹ ڈپٹ ،اسکول داخل ہوتے ہی اسکول ٹیچر کی اونچی اور خوفناک آواز ان کے حوصلے اور سیکھنے کے عظم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔کم از کم پرائمری کے دوران بچوں کو تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے،مگر گھر اور درسگاہوں میں کہاں تربیت ہوتی ہے،وہاں آج بھی A-Apple اور B-Bat کے علاوہ کچھ نہیں رٹایا جاتا۔پاکستان میں توہین آمیز اگر سلوک ہوتا ہے تو اساتذہ سے ہوتا ہے،بچے فخر سے ٹیچر کی بے عزتی کرتے ہیں۔ایک دفعہ ابن انشاء ایک سیمینار میں شرکت کے لئے جاپان میں گئے اور وہاں یونیورسٹی میں ایک پروفیسر سے گفتگو کر رہے تھے۔پروفیسر کے پیچھے سے طالب علم گذرتے مگر اچھل کر گذرتے۔ابن انشاء نے جاپانی پروفیسر سے پوچھا کہ آپ کے پیچھے سے گذرتے طالب علم اُچھل کر کیوں گذرتے ہیں؟،تو جاپانی پروفیسر نے کہا کہ دھوپ کی وجہ سے میرا ’’سایہ ‘‘زمین پر پڑتا ہے،طالب علم اس لئے اچھل کر گذرتے ہیں کہ کہیں میرے ’’سائے‘‘پر ان کے پائوں نہ پڑ جائیں۔دنیا میں قومیں عمل اور اصولوں سے کامیاب ہوتیں ہیں۔اگر پاکستان میں صرف تعلیمی نظام درست ہو جائے،طالب علم ڈگری سے زیادہ ’’علم‘‘ حاصل کرنے کی جستجو کریں تو ایک انقلاب آئے گا۔آئیں مل کر کوشش کریں،صرف آپ اگر اپنے بچے کو ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے کھانا اور ہر کام شروع کرنے کی پابندی کرائیں اور ابتدائی لیول پر صرف امتحان کی سطح پر صرف اتنا باور کرائیں کہ ہر کام میں برکت اور کامیابی ہوگی،اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد ﷺ کا حکم اور فرمان ہے،جس میں حکمت کار فرما ہے تو بچوں کی زندگی تبدیل ہو جائے گی۔کم از کم روزانہ 10 چھوٹے بڑے لوگوں کو با آواز بلند ’’السلام وعلیکم‘‘ کہیں،جس کے جواب میں ان کو روزانہ کم از کم 10 بار سلامتی کی ’’دعا‘‘ ملے گی اور بچے کا ’’Confidence ‘‘ بہت بلند ہو گا،صرف آزما کر دیکھ لیں۔صرف ابتدائی 3 مہینوں میں مثبت تبدیلی نہ آئی تو ’’گلہ‘‘ضرور کریں۔شمالی یورپ کا ایک چھوٹے سا ملک’’Finland‘‘ ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 65 اور آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے۔ملک کی کل آبادی 55 لاکھ یعنی 5.5 ملین ہے لیکن کمال دیکھیں اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے Finland دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور دنیا کی سپر پاور ’’امریکہ‘‘20 ویں نمبر پر ہے۔2020 تک دنیا کا واحد ملک ہو گا جہاں مضمون (سبجیکٹ)نا م کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائے گی۔Finland کا کوئی بھی اسکول 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے،صرف 19 بچوں پر ایک ٹیچر اور دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی Finland میں ہوتی ہے،بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ صرف بریک میں گذارتے ہیں ۔دوسرے نمبر پر57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے،جب کہ پاکستان میں والدین کو پتہ لگ جائے کہ پڑھانے کے بجائے طویل بریک اسکول میں ہوتی ہے تو والدین ایسے اسکولوں سے بچے اُٹھا لیں۔خیر مزید دلچسپ بات دیکھیں ،Finland کے اسکولوں میں پورے ہفتے میں صرف 20 گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے ،تقریباََ 4 گھنٹے روزانہ اور صرف 5 دن جب کہ اساتذہ روزانہ 2 گھنٹے اپنی Skills بڑھانے پر صرف کرتے ہیں۔Finland میں ٹیچر بننا ڈاکٹراور انجینیئر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے۔Finland کی تمام یونیورسٹیز کے ’’Top-Ten ‘‘ماسٹرز کئے ہوئے طالب علموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے۔(پاکستان میں کبھی استادوں اور پروفیسروں کے لئے لفظ’’Top-Ten ‘‘ سنا ہو،یہاں بدمعاشوں،بھتہ گیروں،فلم اسٹاروں،گلوکاروں اور سرمایہ داروں کے لئے Top-Ten سنا جاتا ہے)۔Finland میں سات سال سے قبل کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا اور ان بچوں کے لئے کوئی اسکول نہیں ہے،پندرہ سال سے قبل بچے سے اسکولوں میں کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں جس میں ماں ،باپ اور اساتذہ بچے کی نیند حرام کریں۔بچوں پر کھیلنے،بھاگنے پر پابندی لگ جائے،دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا جائے۔گھروں میں آنے والے مہمانوں سے بھی ملنے اور بات کرنے پر پابندی ہو،گھروں میں بچوں کے لئے کرفیو اور مارشل لاء کی کیفیت پیدا کر دی جائے اور معصوم بچوں کی سیکھنے اور پڑھنے کی صلاحیتیں سلب کر دی جائیں۔(Finland جو کہ تعلیم میں پہلے نمبر پر ہے اور پاکستان شائد 900 نمبر پر ہے،صرف اتنا موازنہ ضرور کریں کہ ہمارے ملک اور وہاں تعلیم میں کیا فرق ہے؟،بچوں کی بہتر نسل کے لئے کیا کرنا چاہئے؟)۔وہاں پورے ملک میں طلبہ اور طالبات کے لئے ایک ہی امتحان ہوتا ہے،ریاضی کے استاد سے پوچھا ،آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں،وہ مسکراتے ہوئے بولے ’’میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں،کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو با آسانی حل کر سکتے ہیں۔آپ جاپان کی مثال لیں ،تیسری جماعت تک وہ بچوں کو صرف ایک مضمون سکھاتے ہیں وہ صرف’’اخلاقیات‘‘ اور ’’آداب‘‘ ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا جس میں آداب نہیں اس میں دین نہیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والوں کو حضرت علیؓ کا قول کہاں سے ملا اور مسلمانوں اور پاکستانیوں کو حضرت علیؓ کا قول معلوم کیوں نہیں؟۔یا پھر اس پر عمل کیوں نہیں ؟،جاپان میں اگر کوئی استاد اپنا تعارف کرائے تو قوم وزیراعظم سے زیادہ عزت دیتے ہیں۔