زیادتی کے واقعات کی روک تھام اور میڈیا کا کردار
کیا یہ بات حقیقت ہے کہ ہم ایک اسلامی ملک ہیں‘کیا یہ بات درست ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا کیا اس بات میں کوئی صداقت ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد آزادی میں ہزاروں قربانیاں دینے والوں نے اس بات کا کبھی تصور کیا ہوگا کہ ان کی جدوجہد آزادی کی قربانیوں کی اس طرح تذلیل کی جائے گی اگر قائد اعظم اور ان کہ ساتھ لاکھوں مسلمانوں کو اس بات کا اندازہ ہوتا کہ ہم انگریزوں سے آزدای حاصل کرنے کے بعد بھی آنے والی نسل کو غلامی کی زندگی دے رہے ہیں تو شاید علامہ اقبال کبھی پاکستان کا تصور نہ کرتے کبھی قائداعظم مسلمانوں کے لئے آزاد مملکت کا مطالبہ پیش نہ کرتے ہم آج بھی70 برس گزر جانے کے با وجود نااہل کرپٹ سیاستدانوں کی غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے جمہوریت کی آزادی عدلیہ کی آزادی میڈیا کی آزدای اور آزاد نظام زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آج بھی وطن عزیز بے پناہ مسائل کی زد میں ہے جس کے ذمے دار سیاسی پنڈت مذہبی ٹھیکیدار ہیں جنھوں نے کبھی اس ملک و قوم کی تر قی و خوشحالی کی سنجیدہ کوشش نہیں کی کبھی اس مسائل زدہ قوم کے مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد نہیں کی کبھی اس ملک میں اسلامی قوانین نفاذ کرنے کی جدوجہد نہیں کی گئی کبھی اس ملک کے دشمنوں کو واضح پیغام نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ہم ایٹمی قوت ہونے کہ باوجود گھگیائی بلی کی طرح ملکی سلامتی کے ناقص فیصلے کر رہے ہیں ہم آج دہشت گردی کا اہم ہدف بنے ہوئے ہیں جس میں ہر روز اس قوم کا بے گناہ خون بہایا جارہا ہے پاکستان مخالف ممالک ہماری ترقی و خوشحالی کی راہ میں روکاٹ بن رہے ہیں مگر ہمارے اربا ب اختیار ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر اس ملک و قوم کو مفلوج بنا رہے ہیں ۔ گذشتہ دنوں زینب سے زیادتی کرنے والے درندے عمران کو پنجاب حکومت کی جانب سے دو ہفتے بعد گرفتار کر لیا گیا جو ایک خوش آئیند مگر ادھوری کامیابی ہے بچی اور اس کے لواحقین کو مکمل انصاف اُس وقت ملے گا جب اس درندے کو سر عام چوک پر لٹکا کر اس کو پرندوں اور بھیڑیوں کی خوراک بنا دیا جائے جس طرح اس درندے نے زیادتی کی اُس کی روح کو اُس کے جسم کو وحشی درندوں کی طرح نوچ کھایا اس کا حال بھی ایسا ہونا چاہے کیوں کہ اس درندے کے ہاتھوں یہ پہلی زینب نہیں تھی اس سے پہلے بھی یہ سات معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کر چکا ہے اس کی سزا کو اگر مثال نہ بنایا گیا تو یہ لاکھوں معصوم بچیوں کے ساتھ نا انصافی ہوگی اس بچی کے ساتھ ساتھ زیادتی کانشانہ بنے والی مردان کی عاصمہ کو بھی مکمل انصاف ملنا چاہئے مگر کیا اس سانحہ کے بعد قوم کی ہر بیٹی محفوط ہوجائے گی ؟
اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان درندوں کو سزا ہوتے ہی ہمارا معاشرہ درست نظام کی جانب گامزن ہوجائے گا۔ دراصل ہمیں ان واقعات کی روک تھام کے ساتھ ساتھ اُن عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں ہم اسلامی ملک ہونے کے با وجود بے حیائی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس میں اہم کردار ہمارا آزاد میڈیا انجام دے رہاہے ۔میڈیا چینلز پورا سال بے حیائی کے ایسے پروگرام پیش کر رہے ہیں جن کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل بے حیائی کی جانب بڑھ رہی ہے انڈیا کے گانوں پر معصوم بچیوں سے بے حیائی کے ڈانس کرائے جارہے ہیں ۔ہماری اداکارائیں دشمن ملک کی فلموں میں بے حیائی کے کام کر رہی ہیں جن کو دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے ملک میں گانوں ڈانسوں اور ادکاری کے مقابلے کرائے جاتے ہیں۔ ہم یہاں میڈیا کی آزادی کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہم یہاں میڈیا کو درست سمت کی جانب گامزن کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی بے پناہ چینلز ہوں جو پاکستان کے وقار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرے جو ایسے پروگراموں کو پیش کریں جس سے ہمارے نئی نسل سبق سیکھ سکے آج ہمارا میڈیا زیادتی سے محفوظ بنے کے طریقے بتا رہا ہے جو اچھا اور اہم مسئلہ ہے مگر اس سے پہلے ہمیں بے حیائی کے تمام ایسے پروگراموں پر پابندی عائد کرنا ہوگی ۔ ہماری پارلیمنٹ ہماری عدلیہ اور تما م وہ ادارے جو اس نظام کو چلانے میں برابر کے شریک ہیں ان کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہمارا ملک یہ قوم محفوظ اور درست نظام کے تحت اپنی زندگیوں کو بسر کر سکے ہم یہاں سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کوئی اور سانحہ رونما ہونے سے پہلے ازخود نوٹس لے کر کروڑوں بچیوں کو محفوظ بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں جو بعد کے ازخود نوٹس سے بہتر ہے ایسے پروگراموں ایسے میڈیا چینلز اور ایسے اینکرز حضرات پر پابندی عائد کی جائے جو بے حیائی کے پروگرام پیش کر کے ملک و قوم کو بے حیائی کی جانب راغب کر نے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ملک کا نظام درست سمت پر گامزن ہوسکے ۔