پیپلز پا رٹی پورے ملک میں اثر رکھتی ہے۔ یہ اثر کہیں پر زیادہ اور کہیں پر کم ہے لیکن بہر حال اثر ضرور رکھتی ہے لیکن ہمیں یہ بات ماننا پڑے گی کہ پاکستان پیپلز پا رٹی ایک ملک گیر جماعت ہے اور پورے ملک کے عوام کی نمائندگی ماضی میں بھی کرتی رہی ہے اور اب بھی کرسکتی ہے۔مسلم لیگ ن پاکستان بنانے والی جماعت تھی لیکن اب مسلم لیگ بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ بہت حد تک تبدیل ہو چکی اور یہ وہ جماعت نہیں ہے جس نے کہ پاکستان بنایا تھا۔یہ بھی نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی جماعت بن کر رہ گئی ہے ،مسلم لیگ ن اہم سیاسی جماعت ہے ،اس کو پورے ملک کی جماعت بننا چاہیے تھا ۔ میں اس حوالے سے کہوں گا کہ ان کی قیادت نے خود کو ایک صوبے تک محدود کر دیا ہے۔ یہ سب ان کا اپنا کیا دھرا ہے کسی اور کا نہیں ہے ،ضروری نہیں کہ پورے ملک میں الیکشن جیتیں لیکن لڑیں تو سہی ‘کسی اور صوبے میں اپوزیشن میں تو آئیں کوئی حیثیت تو ہو ؟ لیکن ایسا ہو تا ہوانظر نہیں آرہا ہے۔اس بات کی ایک مثال میں یوں دیتا ہوں کہ پنجاب میں الیکشن مہم کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت پنجاب سے باہر نہیں گئی ان کی تمام توجہ پنجاب پر مرکوز رہی ،لیکن اس کے برعکس پیپلز پا رٹی کی قیادت ہمیں چاروں صوبوں میں انتخابی مہم کرتی ہو ئی دکھائی دی۔اور اسی طرح کسی بھی پارٹی کے ورکرز میں بھی نئی جان پڑتی ہے،اور کارکنان کو یہ احساس ہو تا ہے کہ پارٹی ان کے صوبے اور ان کے علاقے میں موجود ہے۔یہ میری پیش گوئی ہے کہ انشا اللہ پیپلز پا رٹی کی حکومت قائم ہو گی اور جلد ہی قائم ہو گی جو طویل عرصے تک چلے گی ،اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان پیپلز پا رٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے ،جو کہ نوجوان اور جوان فکر شخص ہیں ،انہیں نہ تو حکومت کی کو ئی لالچ ہے نہ ہی کوئی ذاتی مفادات ہیں بس ملک کی ترقی چاہتے ہیں ،ان کی یہی خواہش ہے کہ پیپلز پا رٹی کو ملک گیر پارٹی بنایا جائے۔اب امید ہے کہ ان کی قیادت میںیہ مقصد حاصل ہو گا اور اس حوالے سے بھرپور کامیابی ملے گی۔بہر حال آنے والا وقت پیپلز پا رٹی کا وقت ہے۔پیپلز پا رٹی اپنے ورکرز کے مفادات کا تحفظ کرے کیونکہ یہی پیپلز پا رٹی کا کلچر رہا ہے ،یہ اس جماعت کا وطیرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پا رٹی کے کا رکنان ہمیشہ سے ہی یک جان رہے ہیں۔اگر ورکرز کی عزت کی جائے اور نبض پر ہاتھ رکھا جائے تو ان کے لیے اتنا ہی کافی ہو تا ہے۔آج ملک میں ایک اتحادی حکومت ہے جو کہ پیپلز پا رٹی اور ایم کیو ایم کے سہارے پر کھڑی ہو ئی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس اتحادی حکومت کا مرکزی پارٹنر جو کہ مسلم لیگ ن ہے وہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے اور سیاسی معاملات میں خاصی کمزور واقع ہو ئی ہے ،پاکستان کو اس وقت سیاسی طور پر ایک نہایت ہی متحرک حکومت کی ضرورت ہے ،جو کہ نہ صرف اتحادیوں کے معاملات کو ساتھ لے کر چل سکے بلکہ اپوزیشن جماعتوں کا بھی مقابلہ کر سکے۔ایسی اہلیت اور صلاحیت موجودہ حکومت اور وزیر اعظم میں نظر نہیں آرہی ہے۔سیاسی بیانیہ کے معاملے میں بھی حکومت نہایت ہی کمزور وکٹ پر دکھائی دے رہی ہے۔میں یہاں پر کہنا چاہتا ہوں کہ اس میں کوئی بھی چیز دیدہ دانستہ نہیں ہے ،حکومت شاید بہتر کرنا چاہتی ہے لیکن کرنے کے قابل نہیں ہے۔بہر حال ملک اس وقت ایک عجب سے مخمصے میں پھنسا ہوا ہے ،ایک ایسی کیفیت طاری ہے جس کے حوالے سے شاید ادراک سب کو ہو رہا ہے کہ یہ صورتحال اسی طرح سے زیادہ عرصہ تک چل نہیں سکتی ہے لیکن کوئی حل بھی نہیں نکل رہا ہے اور کوئی نکالنا چاہتا بھی نہیں ہے۔لیکن بات پھر وہیں پر آجاتی ہے کہ شاید کوئی حالات بہتر کرنا چاہتا بھی نہیں ہے ،نیت کا مجھے معلوم نہیں ہے لیکن بظاہر دیکھنے میں ایسا ہی لگتا ہے۔جس طرح سے حال ہی میں آئینی ترمیم منظور کروائی گئی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ کو ئی پختہ ذہنوں کا منصوبہ نہیں تھا یہ ان کی تخلیق نہیں تھی کیونکہ اس میں کافی کمی اور کو تاہیاں دکھائی دیتی ہیں۔عدل کے نظام کو کبھی بھی سول حکومت کے ماتحت نہیں ہونا چاہیے ورنہ ہو گا یہ کہ نظام عدل کو ئی بھی بہتر کا رکردگی کا مظاہر ہ نہیں کر پائے گا۔اور کوئی بہتری آنے کی بجائے مزید کمزوریاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی اور اس کے نتیجے میں پہلے سے کمزور نظام عدل مزید کمزور ہو جائے گا۔مضبوط عد ل کے نظام سے ہی قومیں بنتی ہیں اور اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔اس وقت امریکہ دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے۔ امریکہ کے عدالتی نظام پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ امریکہ کا عدالتی نظام اتنا مضبوط ہے اور ججز کو اتنی طاقت حاصل ہے کہ جج ریٹائر ہی نہیں ہوتا ہے اور مرتے دم تک جج ہی رہتا ہے۔ہمیں بھی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت ملک میں افراتفری کا عالم ہے ،اور پی ٹی آئی والے مختلف اقسام کی کالیں دے رہے ہیں ،کبھی کوئی کال دی جارہی ہے کبھی کوئی کال دی جاتی ہے۔اب سول نافرمانی کی کال دے دی گئی ہے ،سول نافرمانی تو اس وقت کی گئی تھی جب حکومت غیروں کی تھی اور ہم غلام تھے ،آج تو ہم ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اس لیے اس قسم کا اعلان کرنا عجوبہ ہے۔کسی صورت سے بھی عوام کو اس قسم کی کال کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے ،بجلی او ر گیس کے بل نہ دیں باہر سے پاکستانی پیسہ نہ بھیجیں ،یہ کوئی طریقہ نہیں ہے احتجاج کریں ،پارلیمان کا فورم استعمال کریں ،سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بامعنی شرکت کریں ،اسمبلی کو بہتر طریقے سے چلانے کی کوشش کریں
پیپلز پا رٹی کے بڑھتے ہوئے قدم
Dec 13, 2024