آج کے دن پی ڈیم کی اہم جماعت مسلم لیگ ن نے لاہور میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس مقصد کیلئے مریم نواز نے لاہور میں پچھلا ہفتہ بڑا مصروف گزارا تا کہ اپنے جلسے کو کامیاب کرا سکیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سیاسی جماعت یا سیاسی اتحاد جلسے کا اعلان کرتا ہے اور پھر اس جلسے کیلئے جگہ جگہ جا کر لوگوں کو دعوتیں بھی دی جا رہی ہیںاس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی کہ کوئی جماعت یوں اپنے جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے جگہ جگہ خوار ہوتی پھرے ،سیاسی کارکنان کیلئے اعلان ہی کافی ہے لیکن شاید مسلم لیگ ن کو ڈر ہے کہ ان کا ووٹر سپورٹر ہمیشہ کی طرح کہیں لسی پی کر گھر ہی نہ سویا رہے اور جلسہ گاہ ان کیلئے شرمندگی کا باعث بن جائے ۔اسی لاہور کے مینار پاکستا ن میں پاکستان تحریک انصاف کی اڑان شروع ہوئی تھی اور عمران خان نے صرف جلسے کا اعلان کیا تھا تو لوگ جوق در جوق خود ہی آنا شروع ہو گئے تھے پھر لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح مینار پاکستان سے شروع ہونے والا سفر ایوان وزیراعظم جا کر ختم ہوا ۔اس کے علاوہ اس جلسے میں اپوزیشن کے اتحاد یعنی پی ڈی ایم نے استعفوں کا بھی اعلان کر رکھا ہے ۔سیاست کا طالب علم ہونے کے ناطے اتنی تاریخ توہمیں بھی ازبر ہے کہ پاکستان میں آ ج تک کسی جماعت نے استعفے نہیں دیئے صرف استعفوں کا دبائو ڈال کر بات منوائی جاتی ہے اور ماضی میں بھی منوائی گئی ہے۔مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے اپنے استعفے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے پاس جمع کرائے تھے۔ یہ سپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ استعفیٰ قبول کرے یا نہ کرے تو اس وقت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے مسلم لیگ ن کے سپیکر سردار ایاز صادق سے درخواست کی تھی کہ تحریک انصاف کے استعفے قبول نہ کئے جائیں(اب تو عمران خان برملا کہہ چکے ہیں کہ اگر اپوزیشن کو استعفے دینے کا شوق ہے تو پورا کرے ہم دوبارہ ضمنی انتخابات کرائیں گے ) لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ اتحاد میں شامل سب جماعتیں استعفیٰ دیں جس پر ن لیگ بھی کسی حد تک متفق ہے۔ ن لیگ میں نوازشریف کے حامی چاہتے ہیں کہ وہ مستعفی ہو جائیں جبکہ شہباز شریف کے گروپ کے لوگ استعفوں کے حق میں نہیں ہیں۔ بعض ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف گروپ کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ مریم بی بی خود تو پارلیمنٹ کی ممبر بھی نہیں ہیں لیکن ہمیں پارلیمنٹ سے نکلوانا چاہتی ہیں(کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے اسی لئے جلسے سے قبل اندرون شہر میں حمزہ شہباز شریف زندہ باد کے نعرے لگوائے تا کہ یہ تاثر جائے کہ وہ ایک ہیں)۔ خیر پی ڈی ایم کی اہم جماعت پیپلز پارٹی بھی استعفوں پر متفق دکھائی نہیں دیتی ابھی تک ان کی جماعت کی جانب سے کوئی ایسی سرگرمی نہیں دکھائی دی یا کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا کہ وہ بھی مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کی استعفوں والی حکمت عملی پر متفق ہیں ۔بات ہو رہی تھی استعفوں کی تو پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن آج تک کبھی اپوزیشن نے استعفوں کے اعلان کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اور استعفے جمع کرانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کوئی ممبر قومی اسمبلی مستعفی ہونا چاہتا ہے تو وہ اپنا تحریری استعفیٰ ا سپیکر قومی اسمبلی کے پاس جمع کرائے گا اور پھر اسپیکر قومی اسمبلی اسے ذاتی حیثیت میں طلب کریں گے اور اس کی مرضی جاننا چاہیں گے کہ وہ کیا اپنی مرضی سے استعفیٰ دے رہا ہے یا اس پر کوئی دبائو ہے۔ اگر وہ کہے کہ دبائو ہے تو استعفیٰ قبول نہیں ہو گا اور اگر کہے کہ اپنی مرضی سے استعفیٰ دے رہا ہے تو پھر جا کر وہ کہیں اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی تصور ہو گا۔ یہ تمہید بتانے کا مقصدصرف یہ ہے کہ پی ڈی ایم خالی نعرے لگا رہی ہے عملی طور پراس اتحاد میں شامل کسی ایک جماعت کے کسی ایک رکن کا استعفیٰ بھی نہ تو کسی صوبائی اسمبلی میں اور نہ ہی قومی اسمبلی میں اسپیکر حضرات کے پاس جمع ہوا ہے۔ اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں یا دور کے ڈھول سہانے۔ پی ڈی ایم میں شامل اتحاد شاید سمجھتا ہے کہ اس طرح حکومت گرانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ اتنا آسان عمل نہیں ہے۔جلسے تحریک انصاف نے ان سے زیادہ بڑے کئے اور عمران خان نے طویل ترین دھرنا بھی دیا لیکن حکومت اپنی مدت پوری کر کے ہی گئی ۔اس لئے اپوزیشن شوق سے جلسے کرے ،جہاں دل چاہے جلسے کرے اس بات کی تو حکومت بھی انہیں کھلی چھوٹ دے چکی ہے لیکن اس وقت کرونا کی وجہ سے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اور کرونا کی دوسری لہر اپنے پنجے جما چکی ہے پھر اس کے علاوہ را کا فیکٹر بھی بڑا اہم ہے ۔لاہور میں ہی کچھ دن قبل سکیورٹی اداروں نے را کا ایک بڑا نیٹ ورک پکڑا ہے جس میں کچھ افغانی اور انڈین نیشنل لوگ شامل ہیں۔ ایسے میں لاہور میں ہی پی ڈی ایم کا جلسہ ہونا اور پھر تخریب کاری کا عنصر اگر خدانخواستہ ہوتا ہے تو یہ تانے بانے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتیں گرتی ہیں یا بنتی ہیں تو اس کیلئے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے جس مقصد کیلئے اپوزیشن کے لوگوں کو ان کے حلقہ انتخاب کے عوام نے منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے۔اپوزیشن کو اپنے حصے کے دودھ پر اکتفا کرنا ہو گا ،دوسرے کے دودھ پر بھی نظریں جمانے اور بھینس کو اپنے قابو میں کرنے کی کوششیں چھوڑنا ہوں گی اسی میں پاکستان کی بھلائی ہے ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38