’’دل دھڑکنے کے علاوہ کیا کام کرتاہے۔‘‘ وہ اکثر ابا سے پوچھاکرتی تھی۔ ’’بیٹا دل ہاتھ پکڑ کر اپنے رستے لے چلتا ہے…‘‘ ’’کہاں ہو تم؟ کہا بھی تھا کہ بچوں کو ٹائم دینا ورنہ بچے خراب ہو جائیں گے۔ ‘‘ تیز آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ پانچ سالہ بو بی کے ہاتھ سے پلیٹ گر کر ٹوٹ چکی تھی۔ اگرچہ یہ وقتی حادثہ تھا۔ پلیٹ تو کسی سے بھی ٹوٹ سکتی ہے لیکن یہاںسوال ماں کی تربیت پر آ گیا تھا۔ چونکہ وہ آٹھ سے دو بجے تک جاب پر جاتی تھی۔ پلیٹ ٹوٹنے ، بوبی کے رونے اور اس کی تربیت پر تنبیہ کی آوازیں اس کا دل ٹوٹ جانے کی چھن سی آواز کو پوری طرح دبا چکی تھیں…
’’یہ بچہ غیر ذمہ دارہو گیا ہے۔ یہ آنکھوں میں دیکھ کر چیخ چیخ کر روتا ہے۔ ہمارے زمانے میں بچوں کی ہمت نہیں تھی کہ حلق سے ایک آواز نکلے۔ یہ سب اس لیے کہ ماں بہت مصروف ہے ان کی‘‘ …وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس نے اپنی ڈگری نکال کر سامنے رکھ لی۔ شروع شروع میں ابا بائیک پر سکول لے جایا کرتے تھے۔ پھر گاڑی لی انہوں نے…شاید یہی ان کے دل کا رستہ تھا کہ اپنی بیٹی کو پڑھائوں گا…کیا ماں بن جانے سے اپنے دل کا ہاتھ پکڑکر چہل قدمی کرنے کا حق یکسر ختم ہو جاتا ہے؟ کیا اپنا پروفیشن فالو کرنے سے یہ ثابت ہو جاتاہے کہ میں اچھی ماں نہیں ہوں؟ کیا میرا اپنے آپ سے محبت کرنے کا حق ختم ہو جاتا ہے؟ …ڈگری کی سائیڈ پر کچھ مٹی چپک گئی تھی۔ اس نے سوچا تھوڑی دیر میں صاف کروں گی۔ بوبی دودھ پیتے ہوئے کہانی سننے کی خواہش کر رہا تھا…اس نے بوبی کو پیار سے بوسہ دیا اور ایک کہانی کہنے لگی۔ ایک کلی کی کہانی جسے کھل کر پھول بننے کے لیے روشنی اور پانی کی ضرورت تھی۔ بوبی دودھ پیتے پیتے سو گیا تھا لیکن وہ اب تک کہانی بن رہی تھی کہ ابھی کلی کھل کر پھول نہیں بنی تھی۔ اچانک اُسے باہر سے آواز آئی۔ ’’تمہاری بیگم اپنے لیے جاب کرتی ہے۔ کون سا اس گھر پر لگاتی ہے یا میرے ہاتھ پر تنخواہ رکھتی ہے۔ یہ اس کی خود غرضی ہے۔ ایک اتوار کے دن بھی کوئی صبح صبح کچن سے پراٹھوں کی خوشبو آئے۔ حسرت ہی رہ گئی ہماری‘‘…اس نے کہانی ادھوری ہی چھوڑ دی کہ اب کلی کو کھل کر پھول بننا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ ڈگری کے سائیڈ پر لگی مٹی نظر انداز کرتے ہوئے وہ باہر آ گئی۔ فریج سے آٹا نکالا لیکن وہ خمیر ہو چکا تھا۔ پراٹھوں سے ذرا سی بھی مہک آئی تو خود غرض ماں، پھوہڑ بہو اور بدمزہ کھانا بنانے والی بیگم کا خطاب مل جائے گا لیکن سب سے زیادہ خوف اسے ان لفظوں سے آتا تھا۔ ’’خود غرض ماں‘‘ یہ سن کروہ پوری پوری رات سو نہیں پایا کرتی تھی۔ ’’کوئی کیسے کسی کے ماں ہونے جیسے درجے کو بھی اپنے ترازو میں ماپ سکتا ہے۔ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ میں اپنے بچے کے لیے کتنی راتیں جاگتی رہی ہوں۔‘‘ یہ سوچتے سوچتے اس نے نیا آٹا چھانا اور دھیرے دھیرے پانی ڈالکر گوندھنے لگی۔ آٹا نرم پراٹھے بہترین بن گئے لیکن اسے محسوس ہوا کہ اسے دھیرے دھیرے خمیر لگ رہا ہے لیکن کسی کو محسوس نہیں ہوتا چونکہ انسان کے خمیر ہو جانے سے آٹے کا خمیر ہوجانا بہرصورت اہم ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024