تازہ واقعہ افسوسناک ہے ۔سر کاری مشینری اوربلڈنگ پر حملہ کہاں کا انصاف ہے ؟مریض تڑپ رہے ہیں انکی سانس کی نالیاں نکال کر انھیں موت کے منہ میں دھکیلناکون سی انسانیت ہے ؟وکلا نے بدلہ لینا تھا تو ڈاکٹرز سے لیتے ،مشینری اور بلڈنگ کو نقصان کیوں پہنچایا گیا ؟بیمار شہری سرکاری ہسپتالوں کی ’’راہداریوں میں ایڑیاں‘‘ رگڑ تے ہیں مگر ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہوتے ہیں او پی ڈیز بند ہوتی ہیں۔ مختلف شہروں اور دیہی علاقوں سے مسافت طے کرکے آئے ’’مریض مایوس‘‘ لوٹنے پر مجبور ہیں۔ عموما ً سرکاری ہسپتالوں سے غریب یا متوسط طبقے کے مریض رجوع کرتے ہیں، جہاں وہ ایک جانب ’’مرض لاحق ‘‘ہونے کی وجہ سے سخت پریشان ہوتے ہیں، دوسری جانب ینگ ڈاکٹرز کی آئے روز ہڑتال کے باعث ہسپتالوں کے آوٹ ڈور بند ہونے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔اخباری رپورٹس کے مطابق گزشتہ دس برس کے دوران 300کے قریب مریض ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے دوران طبی سہولیات نہ ملنے پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ صرف 2011 ء میں ہڑتال کی وجہ سے ایمرجنسی، ان ڈور اور آؤٹ بند ہوئے تو 200 کے قریب مریض وفات پاگئے۔ اس زمانے میں فوج کے ڈاکٹروں نے بھی بعض سرکاری اسپتالوں میں ڈیوٹیاں سر انجام دی تھیں۔ جبکہ ینگ ڈاکٹرز کی حالیہ ہڑتال میں ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں مریضوں کے آپریشن ملتوی کئے گئے ہیں۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ مرنے والے کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟ ڈاکٹر ز جب اپنے فرض سے غفلت برتتے ہوئے کسی مریض کا علاج کرنے سے انکار کر دیں تو کیا یہ قتل نہیں؟ ڈاکٹربننے کے بعد ایک حلف اٹھا یا جاتا ہے جس میں واضع درج ہوتا ہے کہ ہم اپنے مریض کو ہر حال میں علاج کی سہولیات فراہم کریں گے،چاہے کچھ ہو جائے اس کا علاج کر یں گے اور علاج سے ہرگز انکار نہیں کریں گے۔ لیکن اس کے باوجود ہر دو چار ماہ بعد سرکاری ہسپتالوں میں احتجاج کے دوران طبی سہولتوں کی معطلی کا افسوسناک سلسلہ شروع ہونا کسی بھی مہذب اور انسانی قدروں پر یقین رکھنے والی ریاست کیلئے کوئی’’ مثبت ‘‘علامت نہیں۔آئے روز کی ہڑتالوں سے ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے پر حرف آتا ہے۔ غریب مریضوں کے لیے سرکاری ہسپتال ہی اس کی امید کا ’’آخری سہا را‘‘ ہوتے ہیں۔لیکن جب مریض وہاں آتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہاں تو ہڑتال ہے ۔اب کالے اور سفید کوٹ کے تنازعہ میں مریض ایک بار پھر پریشان ہو گئے ہیں ۔ چند روز قبل وکلا اور ہسپتال انتظامیہ میں لڑائی ہوئی تھی۔ جس پر وکلاء کی جانب سے احتجاج کے بعد ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا لیکن کسی قسم کی گرفتاری نہیں ہوئی جس پر وکلاء نے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔لیکن یہ معاملہ حل ہو چکا تھا ۔ڈاکٹرز نے باقاعدہ اس پر معافی مانگ لی تھی لیکن گزشتہ روز کسی شرپسند نے ایک ویڈیوبنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جس کی بنا پر معاملہ دوبارہ بگڑا اور نوبت یہاں تک پہنچی۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں پیش آئے واقعے کے بعد شادمان پولیس نے تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا کے خلاف دو الگ الگ مقدمے درج کر لیے ہیں۔پہلا مقدمہ ہسپتال کے عملے کے ایک رکن کی مدعیت میں 250 سے زائد وکلا کے خلاف قتلِ خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، ہوائی فائرنگ کرنے، زخمی اور بلوہ کرنے، لوٹ مار، عورتوں پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔بدھ کے روز پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹروں، انتظامیہ اور وکلا کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ہسپتال کی عمارت اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچا تھا جبکہ پنجاب کی وزیر صحت نے ہنگامہ آرائی کے باعث تین مریضوں کی ہلاکت کی تصدیق بھی کی ہے۔ایف آئی آر کے مطابق بدھ کے روز دن 12 بجے 200 سے 250 مسلح و مشتعل وکلا ایمرجنسی گیٹ کو توڑتے ہوئے زبردستی ہسپتال کی عمارت میں داخل ہوئے اور مختلف ٹولیوں میں بٹ کر ہسپتال کے مختلف شعبوں میں توڑ پھوڑ کی۔اب لوگ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ ’’ جنگوں میں بھی ہسپتالوں ‘‘پہ حملے نہیں کیے جاتے ،یہ پرانی بات ہو گی ہے ۔جنیوا کنونشن کے تحت تو آبادی اور گھروں پہ حملے بھی نہیں کیے جاتے ،لیکن افغانستان میں تو شادی والے گھر کو نہیں بخشا جاتا۔ دہشت گرد قوموں نے ’’انسانیت کا جینا حرام‘‘ کر رکھا ہے ۔اس میں بھارت سر فہرست ہے ۔جس نے اسی لاکھ افراد کو قیدی بنا رکھا ہے لیکن عالمی برادری نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے ۔
ڈاکٹر ز ہر چھوٹے’’ مسئلے ‘‘پر ہڑتال شروع کر دیتے ہیں ۔سپریم کورٹ اس پر پابندی عائد کرے ۔پڑھے لکھے لوگوں کی’’ منہ زوری‘‘ کے سامنے بند باندھنا چاہیے ۔عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے یہ اپنے حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں ۔ڈاکڑز کی’’ ڈگریاں چیک‘‘ کی جائیں ۔ہزاروں کہانیاں پڑھی تو پتھر کے دور میں بھی ایسی باتیں نہیں ملتیں ،جو آج جدید دور میں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ڈاکڑز بھی مریضوں کی’’ سر عام تذلیل ‘‘کرتے ہیں ۔انھیں دھکے دیتے ہیں ۔اس لیے اگر عدالت اس پر واضع حکم صادر کرے تو کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024