کسی کے خواب دیکھنے پر کوئی قدغن نہیں، کچھ خواب نہاں اور کچھ خوابِ پریشاں ہوتے ہیں۔ عمران خان کو مائنس کرنے کے خواہاں خواب پریشاں کی تصویر مجسم ہیں۔ عمران خان کو معروضی حالات میں مائنس کرنے کی خواہش ،ہزاروں خواہشوں جن میں سے ہر خواہش پر دُم نکلتا ہے جیسی ہے۔ مائنس عمران خواب و خواہش کابر آنا ممکن ہی نہیں مگر مولانا کی طرح حسیںسپنوں کا کوئی تاج محل سجا کر اسلام آباد کو تسخیر کرنے نکلتا ہے تواے بی سی پلان بھی محو رقص ہو کے مذاق اُڑاتے اور مولانا کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔…؎
اب خانماں خراب کی منزل یہاں نہیں
کہنے کو آشیاں ہے مگر آشیاں نہیں
مولانا اب پلان بی ڈی یعنی بد دُعاپلان پرکاربند نظر آتے ہیں۔ اب تک کس بڑے لیڈر کو میاں نوازشریف، بینظیر بھٹو آصف زرداری الطاف سمیت مائنس ون کرنے کی کوشش نہیں کی گئی مگر کوئی بھی ایک ایسی کوششوں سے مائنس نہیں ہوا البتہ الطاف اپنی کرتوتوں سے مائنس ہوا اور بینظیر بھٹو اپنی خود اعتمادی سے زندگی سے مائنس ہو گئی۔
نوازشریف نے 90 کی دہائی میں دو مرتبہ بے نظیر کو اقتدار سے تہی کرانے کی سازشوں کا حصہ بن کر انکی حکومت تو ڈبو دی مگر بینظیر کو اقتدار میں رہتے ہوئے مائنس نہ کیا جا سکا یعنی حکومت تو پی پی کی رہے مگربینظیر وزیراعظم نہ رہ پائیں۔ بینظیر نے بھی اسی طرح سازشوں کا حصہ بن کر نوازشریف کی حکومت بھی دو مرتبہ تڑوادی مگر نوازشریف وزیراعظم کے طور پر مائنس نہ ہو سکے۔ بینظیر نوازشریف ایک دوسرے کو مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر نیچاد کھاتے اور اپنی دانست میں منزلِ مراد پاتے رہے۔
آج کی اپوزیشن کا پورا زور مائنس عمران خان پر، دوسرے لفظوں میں ان ہاؤس تبدیلی پر ہے۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کیا کبھی شدت اختلافات کی کوکھ سے ان ہاؤس تبدیلی نے جنم لیا ہے؟ نہیں، بالکل بھی نہیں۔ میاں نوازشریف 80 اور نوے کی دہائی کے سنگم پر بینظیر بھٹو کے خلاف پنجاب حکومت کے پورے کروفر کے ساتھ صدر اسحق خان اور فوج کو ساتھ ملا کر بینظیر بھٹو کیخلاف تحریک عدم اعتما لائے اور بڑے پراعتماد بھی تھے۔کسی بھی اپوزیشن کیلئے موافق اور حکومت کیلئے اس سے زیادہ ناموافق حالات کبھی ماضی میں ہوئے نہ مستقبل میںمگر ہوا کیا دونوں طرف سے سرکاری سرمائے کے دریا بہا دیئے گئے تھے۔ نواز کمپنی کے پاس نمبر پورے ہوچکے تھے مگر پاکپتن کے غلام احمد مانیکا اور رحیم یار خان کے احمد عالم انور کوکوئی ڈبل، ٹرپل یا چرپّل شاہ مل گیا تھا۔
پاکستان میں کسی بھی حکومت کا خاتمہ فوج کے کردار کو مائنس کر کے کرنے کی سوچ اور خواب نامعقولیت کی انتہا ہے۔ لندن میں ’’بیمارِ اعظم‘‘ میاں نواز شریف کے ہوا کے دوش پر کھڑے مے فیئر محل میں پاکستان سے گئے لیڈروں کی محفل میں مبینہ مائنس عمران اور مائنس باجوہ منصوبے بنائے گئے۔کہا جاتا ہے اس منصوبہ بندی میں میاں نواز شریف بھی موجود تھے جبکہ لیگی ایسے اجلاس میں میاں نواز شریف کی شرکت کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں اجلاس میاں شہباز کی سربراہی میں ہوئے۔میاں شہباز شریف ہی نے پارٹی کی رہنمائی فرمانی تھی تو پاکستان سے لیڈروں کے گروہ کو وہاں بلانے کے بجائے وہ اکیلے پاکستان کیوں نہ تشریف لے آئے؟ لندن میں لوگ میاں نوازشریف کے مے فیئر فلیٹس کو چور محل کہہ کر حملے کررہے ہیں‘ خواجہ آصف نے حکومت کودھمکاتے ہوئے کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا، ہم اس کا حملوں کی صورت میںجواب دینگے۔ ان کا حسن کرشمہ ساز ہے جو بھی کریں مگر یہ ایجاد بھی میاں نوازشریف ہی کی ہے۔ سپریم کورٹ پر حملے کو نہ لیں‘ زیریں چوٹی میںصدر فاروق لغاری کی املاک پر یلغار کی قیادت میاں نوازشریف نے بنفسِ نفیس کی تھی۔احسن اقبال کو سفرِ لند ن کے دوران ایک تیس سالہ نوجون نے یہ کہہ کر دُکھی کردیا کہ ایک سال کی حکومتی کارکردگی سے وہ مایوس ہوکراور بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے یورپ سیٹل ہونے جارہا ہے۔احسن اقبال خود بھی کیا حالات کو زبانی نہیں دل سے ایسا ہی سمجھتے ہیں؟ ہاں ! تووہ بھی اپنا مستقبل اس نوجوان کی طرح روشن بنائیں۔ شہباز شریف پر کرپشن کے بے انت الزامات ہیں۔ ایسے مقدمات کو سیاسی انتقام کہا جارہا ہے۔فرض کرلیں انکے خلاف ہر مقدمہ جھوٹا ہے۔انہوںنے ایک دھیلے کی بے ایمانی نہیں کی۔ ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز نے ان پر زلزلہ زدگان کی امداد کے کروڑوں روپے لوٹنے کا الزام لگایا۔بڑی سوچ کے چھوٹے میاں صاحب نے اپنی اور وطن کی عزت کی خاطر اس کیخلاف برطانوی عدالت جانے کا اعلان کیااور کہا لیگل ٹیم روانہ کردی ہے مگر ٹیم شاید راہ کھو بیٹھی ہے۔ڈیوڈ روز طعنے دے رہا ہے‘ اب بھی اس نے کہا،لندن آئے ہو تو مجھے عدالت لے جائومگر میاں صاحب خاموش ہیں۔ جس کسی نے بھی زلزلہ زدگان کا حق کھایا ہے‘ یہ کفن چوری سے کم نہیں۔ یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔
ووٹ کو عزت دو کی طرح سول بالا دستی کے بیانیے پر لیگی قیادت کے پائے استقلال میں کوئی لرزش نہیں آئی۔اب مائنس عمران بیانیے کو اولیت اور تقویت بھی دیدی ہے۔فوج کے بارے بیانیے میں معقولیت اورنامعقولیت میں فرق روا نہیں ہے۔ فوج کیخلاف بیانیے سے آپ تو فوج کو دھکیل کر عمران خان کے ساتھ کھڑا کر رہے ہیں۔ جب تک فوج کی عمران سے خوش گمانی ہے‘ سیاسی طورپر ان کو کوئی خطرہ نہیں‘اس سے عمران مائنس نہیں طاقتور ہوگا۔
عشق ستم نواز کی دنیا بدل گئی
حسنِ وفاشناس بھی کچھ بدگماں نہیں
بالفرض پاک فوج بھی اپوزیشن کی حمایت پر آمادہ ہوجاتی ہے تو بھی مائنس عمران یعنی عدم اعتماد کے امکان کو بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے آ ئینے میں دیکھیں۔ گویا تحریک عدم اعتماد‘ مائنس عمران ہنوز دلی دور است نہیں‘ دلی معدوم است ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024