لاہور ہائی کورٹ سے کارڈیالوجی ہسپتال کا جیل روڈ پر واقع کارڈیالوجی ہسپتال تک کا فاصلہ اندازے کے مطابق چار یا پانچ کلو میٹر کا ہو گا ۔اس راستے میں درجن بھر مقامات پر سیف سٹی کے کیمرے نصب ہیں مگر لاہور کے تحفظ کے ذمہ دارادارے ان کیمروں کے ذریعے وکیلوں کے بپھرے ہوئے ہجوم کو دیکھنے میںناکام رہے۔ اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اصل میں یہ کیمرے میری اور آپ کی گاڑی کا چالان کرنے کے لئے نصب کئے گئے ہیں۔ اور شو بازی کے لئے ان کو سیف سٹی کے کیمروں کا نام دے دیا گیا ہے۔یہ کیمرے لین کی خلاف ورزی پر نگاہ رکھتے ہیں اور کم از کم تین سو روپے کے چالان کی چٹ گھروں میں روزانہ بھیج دی جاتی ہیں۔، جس وقت کارڈیالوجی ہسپتال جنگ کا میدان بنا ہوا تھا، عین ا سوقت میرے گھر میں ٹریفک جرمانے کے دو چالان آ گئے ۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ میڈیا جو یہ شور مچا رہا ہے کہ وکیلوںنے کئی کلو میٹر کاایڈوانس کیا اور اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کیا، اس پر لاہور کو محفوظ بنانے کے ذمے دار ادارے حرکت میں کیوں نہ آئے۔ اور وکیلوں کے لشکر کو ہسپتال سے دور روک کر ہسپتال ، اس کے ڈاکٹروں اور اس میں داخل دل کے مریضوں کو کیوں نہ بچایا گیا۔ نتیجہ یہ سمجھ میں آیا کہ یہ کیمرے ٹریفک چالان کے ذریعے مال بٹورنے کے کام آتے ہیں ورنہ شہر میں اودھم مچے، خونریزی ہوتی رہے ۔ ڈاکے ڈلیں ۔ خواتین کے پرس اور لوگوں کے ہاتھ سے موبائل چھین لئیے جائیں ،ان کی بلا سے۔ شہر میں سیکورٹی قائم رکھنے سے ان کیمروں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ یہیں سے میںنے سوچنا شروع کیا کہ کیا انسان ٹیکنالوجی پر آنکھیں بند کر کے انحصار کر سکتا ہے۔ میرے ذہن نے جواب دیا کہ نہیں۔ اگر ٹیکنالوجی میں اس قدرقابلیت اور صلاحیت ہوتی تو چند روز پہلے بھارت کا اگنی میزائل تجربے کے دوران کیوں پھٹ گیا اور کوئی مہینہ دو مہینے پہلے بھارت ہی کا چاند مشن ناکام کیوں ہوا۔
اور اگر بھارتی فضائیہ کی ٹیکنالوجی میں اتنی مہارت ہوتی تو ابھی نندن آزاد کشمیر کے لوگوںسے تھپڑ نہ کھاتا۔ بھارت نے ٹیکنالوجی کے سنسر، کنٹرول لائن پر نصب کر رکھے ہیں جن کے ذریعے چیونٹی کی سر سراہٹ کی خبر بھی مل جاتی ہے ،چنانچہ بھارتی فوج کے کان ایک چیونٹی کی سر سراہٹ پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ بوفورس توپوں کا فائر مانگ لیتی ہے ۔ اور دنیا کے سامنے شور مچاتی ہے کہ پاکستانی دہشت گردوںنے کشمیر میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔
ایک موبائل فون ہی کو لے لیجئے ۔ روزانہ کتنے لاکھ لوگوں کو رانگ کالیں آتی ہیں۔ کیوں آتی ہیں ۔ یہ کیسے ہو گیا کہ آپ کسی سے بات کر رہے ہیں اور درمیان میں کوئی اور صاحب بھی بولنے لگ جاتے ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ فون ملاتے جائو ملاتے جائو۔ سگنل بھی ٹھیک آرہے ہوتے ہیں مگر نیٹ ورک کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور کال نہیں ملتی۔ آپ کا فیس بک اور ٹوئٹر کا اکائونٹ کسی کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ میری ایک ویب سائٹ ہے جس پر کئی بار بھارت نے ترنگا لہرا دیا اور بیک گرائونڈ میں ا قبال کاترانہ لگا دیا کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا۔ جس روز بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد پر فیصلہ آنا تھا تو انڈیا کے سارے ٹی وی چینلز کو یہ شعر یادا ٓگیا کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ بھارت نے پانچ اگست کو کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنائی تو ان سے ٹیکنالوجی چھین لی۔ ویسے اگر وائی فائی، انٹرنیٹ اور فون بند نہ بھی کئے جاتے تو دنیا کا کونسا ملک اس قدر کشمیریوں کا خیر خواہ ہے کہ اپنی افواج کے ساتھ بھارت پر یلغار کر دیتا۔ ہماری حکومت بھی تو یہی کہتی ہے کہ کسی نے لائن آف کنٹرول کی طرف نہیں جانا ورنہ انڈیا کے ہاتھ یہ بہانہ آ جائے گا کہ پاکستان کشمیر میںمداخلت کر رہا ہے۔ اگر حکومت ہمیں نہ بھی روکے تو ہم میں سے کس مائی کے لال نے کنٹرول لائن میں چھید کر دینا تھا۔
سیف سٹی کے کیمرے اور کارڈیالوجی کا سانحہ دیکھ کر ماضی کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے۔ ایک بار میاں اظہر پنجاب کے گورنر تھے، ان کے پاس غیر آئینی طور پر صوبے کے امن و امان کا چارج بھی تھا۔ انہوںنے آئی جی پولیس چودھری سردار محمد کو طلب کیا اور صوبے میں بد امنی کی وجہ پوچھی تو آئی جی پولیس نے گھڑا گھڑایا جواب دیاکہ جناب وسائل کی کمی ہے۔ گورنر میاں اظہر پھبتی کسنے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ کہنے لگے،۔ آئی جی صاحب ۔، میں آپ کو ایف سولہ بھی دے دوں تو جب تک آپ کو ٹارگٹ کا علم ہی نہ ہو گا تو آپ ایف سولہ کے بم کسی شریف شہری کے گھر گرا آئیں گے۔
ان دنوں پنجاب میں امن و امان اور دیگر انتظامی امور کے لئے اس قدر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی کہ تبادلوں کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ کوئی پانچ یا چھ تو آئی جی بدل گئے اور کتنے سیکرٹری بدلے۔ ان کی تعداد کون جانے۔ سیف سٹی کے کیمرے تو دور دراز کے پس ماندہ علاقوں میں بھی لگائے جا رہے ہیں،یہ کیمرے لوگوں کی محرومیاں نہیں دور کر سکتے۔ اس کام کے لئے انتظامی مشینری کو اپنا دناغ استعمال کرنا پڑے گا اور یہاں عالم یہ ہے کہ انتظامی مشینری نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ کسی فائل کو چھیڑے گی ہی نہیں ۔ یہ میںنہیں کہہ رہا۔ پنجاب اسمبلی کے فاضل اسپیکر چودھری پرویز الہی ٹی وی چینلز کے انٹریوز میں کہہ چکے ہیں۔ جب انتظامی مشینری کام کرنے کو تیا نہیں تو سیف سٹی کے کیمرے وکیلوں کے لشکر کو کارڈیالو جی ہسپتال تک جانے سے کیسے روک سکتے تھے۔ یہ کیمرے صرف میرا اور آپ کا ٹریفک چالان کر سکتے ہیں ورنہ کوئی وارڈن چالان کرے تو رکشے والا اپنا گریبان پھاڑ لیتا ہے اور اپنے رکشے کوآگ لگا دیتا ہے۔پہلے تومال بٹورنے کے لئے دو دو ہزار کے چالان رکھے گئے تھے جنہیں اب دو تین سو کرنا پڑا ہے۔ پولیس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ سوئٹزر لینڈ کے شہریوں کی جیب پر ہاتھ صاف کر رہی ہے۔ اس ماحول میں سیف سٹی کے کیمرے مال بٹورنے ہی کاکام دے سکتے ہیں۔لا اینڈ آرڈر میںمدد کے قابل نہیں۔
جب انتظامی مشینری نے کام کرنا ہو تو اکیلے ڈی آئی جی رانا مقبول نے غلام حیدر وائیں کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے اسی لاہور میں کرفیو نافذ کر دیا تھا۔یہ کر فیو اس قدر سخت تھا کہ اس کی زد میںنوائے وقت کا دفتر بھی آگیا تھا اور میں نے دفتر پہنچنے کی ضد میں سول لائینز پولیس سے دو چار تھپڑ بھی کھائے تھے۔لاہور پولیس ہمیشہ مجھ پہ مہربان رہی۔ چوریاں اور ڈاکے تو معمول بن گئے تھے اور آج میں بہتر سال کی عمر میں پہنچ گیا ہوں مگر لاہور پولیس نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا ۔ مگر لاہور پولیس وکیلوں کومریضوں کے ساتھ بد سلوکی سے نہیں روک سکی ۔ حتی کہ اپنے صوبے کے دبنگ وزیر اطلاعات کو وکلا کے تشدد سے نہیں بچا سکی۔ مجھے رہ رہ کر گورنر میاں اظہر کی پھبتی یادآتی ہے کہ آئی جی صاحب آپ کو ایف سولہ بھی دے دوں تو آپ کسی شریف شہری کے گھر پر بم گراا ٓئیں گے۔ کارڈیالوجی کے سانحے نے ثابت کر دیا ہے کہ لاہور پولیس شہر کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ صرف مجھے ایک ہی چوک میں دو ٹریفک چالان بھیج سکتی ہے۔یہ چھپ کر وار کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔مگر وکیلوں کے سامنے چوں تک نہیںکر سکی اور جب گیس کے گولے پھینکتی ہے تو یہ بھی نہیں سوچتی کہ اس زہریلی گیس کا نشانہ تو حساس اور نازک بیماری کا شکار مریض بنیں گے۔سیف سٹی کی ٹیکنالوجی زندہ بادً!!
بارش کے چند چھینٹے پڑے ہیں تو علاقے میں انٹرنیٹ اور وائی فائی غائب شد! یادرہے میں سری نگر میں نہیں لاہور میںرہتا ہوں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024