اس واقعہ کو ملک میں خانہ جنگی کے خطرہ کی گھنٹی سمجھیں اور اصلاح احوال کے فوری اقدامات اٹھائیں
وکلاء پر حملے کا انتقام! پی آئی سی پر دھاوا بول کر وکلاء نے حشرنشر کردیا‘ صوبائی وزیر ‘ صحافیوں اور مریضوں پر بھی تشدد
وکلاء ساتھیوں پر ڈاکٹروں کے تشدد کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے وکلاء نے گزشتہ روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا۔ ایمرجنسی کا گیٹ اور شیشے توڑ دیئے اور پتھرائو کے علاوہ متعدد گاڑیوں کی بھی توڑ پھوڑ کی اور پولیس وین کو آگ لگا دی۔ اس دوران بعض وکلاء نے ہوائی فائرنگ بھی کی اور پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے والے بعض صحافیوں بشمول ایک خاتون صحافی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ مفاہمت کیلئے آنیوالے صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات فیاض الحسن چوہان کو بھی مشتعل وکلاء نے دبوچ لیا۔ انہیں زدوکوب کیا اور انکے بال نوچے۔ پولیس نے مظاہرین وکلاء کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس اور واٹر کینن گنز کے استعمال کے علاوہ لاٹھی چارج بھی کیا جس سے متعدد وکلاء زخمی ہوئے۔ اس دھاوے میں پورا علاقہ میدان جنگ بنا رہا اور ڈاکٹر بھی وکلاء پر پتھرائو اور نعرے بازی کرتے رہے۔ دوطرفہ پتھرائو میں پولیس اہلکار اور متعدد دوسرے افراد بھی زخمی ہوئے جبکہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل کئی مریضوں کی حالت بھی بگڑ گئی جن کی دیکھ بھال سے ڈاکٹروں اور ہسپتال کے دوسرے عملہ نے وکلاء کے دھاوے کے باعث انکار کر دیا تھا۔ اسکے نتیجہ میں تین مریضوں کے جاں بحق ہونے کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے خود تصدیق کی جبکہ ہیلتھ الائنس نے وکلاء کے حملے کے نتیجہ میں چھ مریضوں کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس صورتحال میں مریضوں اور انکے لواحقین میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوئی اور قریبی مارکیٹیں بھی بند ہو گئیں جبکہ بعض وکلاء خود بھی زبردستی شٹرڈائون کراتے رہے۔ پولیس نے اس واقعہ کے حوالے سے متعدد وکلاء کو گرفتار کرلیا ہے اور پی آئی سی پر وکلاء کے حملے کی دو ایف آئی آر بھی درج کرادی گئی ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تین ہفتے قبل پی آئی سی میں ڈاکٹروں اور عملے کی جانب سے وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ رونما ہوا تھا جس پر وکلاء برادری سراپا احتجاج تھی۔ انتظامیہ کے بقول دو روز قبل سی سی پی او کے آفس میں فریقین وکلاء اور ڈاکٹروں کے مابین راضی نامہ بھی ہو گیا تھا اور ڈاکٹروں نے وکلاء نمائندگان سے معافی مانگ لی تھی۔ اسکے باوجود وکلاء نے اپنا احتجاجی جلوس گورنر ہائوس سے جیل روڈ پر لا کر پی آئی سی پر دھاوا بولا جس کیلئے ایک ڈاکٹر کی سوشل میڈیا پر جاری ہونیوالی ویڈیو کو جواز بنایا گیا اور اس ویڈیو کو پوری وکلاء برادری کی توہین کرنے کے مترادف قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے زیادہ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ وکلاء ہاکیوں‘ لاٹھیوں‘ ڈنڈوں‘ پتھروں اور آتشیں اسلحہ سے لیس ہو کر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پی آئی سی پر حملہ آور ہوئے تھے مگر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ان وکلاء کو راستے میں روکنے کیلئے کوئی اقدام اٹھایا گیا نہ پی آئی سی کی حفاظت کیلئے کوئی مناسب انتظام کیا گیا چنانچہ وکلاء بے دھڑک ہو کر مسلسل تین چار گھنٹے تک پی آئی سی میں توڑ پھوڑ کرتے اور ہر مکتبہ زندگی کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ ان وکلاء نے بعدازاں شاہراہ قائداعظم پر بھی تشدد آمیز مظاہرہ کیا اور ٹریفک میں خلل ڈالا۔
پی آئی سی پر وکلاء کے حملہ آور ہونے اور ایک صوبائی وزیر‘ صحافیوں‘ ڈاکٹروں‘ پولیس اہلکاروں اور مریضوں کے لواحقین تک کو تشدد کا نشانہ بنانے کا واقعہ بادی النظر میں ہمارے معاشرے میں در آنیوالی اخلاقی گراوٹوں کی نشاندہی کرتا ہے جس میں قانون دانوں‘قانون کے محافظوں اور ڈاکٹروں کے ہاتھوں بھی شہریوں پر تشدد کی صورت میں شرف انسانیت کی پامالی بعیداز قیاس نہیں رہی جبکہ متذکرہ واقعہ کے حوالے سے انتظامی مشینری اور سول اتھارٹی مکمل بے بس ہی نہیں‘ حالات کی سنگینی سے بے نیاز بھی نظر آئی ہے۔ اگر حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے معاملہ فہمی سے کام لیا جاتا تو ڈاکٹروں کے وکلاء پر تشدد کے واقعہ کے بعد وکلاء کے پی آئی سی پر دھاوے کی نوبت ہی نہ آتی اور فریقین میں ٹھوس بنیادوں پر افہام و تفہیم کراکے اس نوعیت کے مزید واقعات رونما ہونے کا سدباب کردیا جاتا مگر مطلوبہ افہام و تفہیم کیلئے صوبائی وزارت صحت کا کردار نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے کیونکہ وزیر صحت تک نے وکلاء پر ڈاکٹروں کے تشدد کے واقعہ کا نوٹس نہیں لیا تھا جبکہ پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ڈاکٹروں اور وکلاء کی تنظیمیں خود کرتی رہیں جس میں ایک دوسرے پر پوائنٹ سکورنگ کی ہی کوشش کی جاتی رہی۔
اگر انتظامیہ کے بقول فریقین میں مفاہمت ہو گئی تھی تو پھر وکلاء کے دوبارہ احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ اگر وکلاء تنظیموں کے قائدین کی جانب سے معاملہ فہمی سے کام لیاجاتا تو وکلاء کی دوبارہ احتجاج کیلئے صف بندی کی نوبت نہ آتی مگر مبینہ طور پر لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے آنیوالے انتخابات کے باعث وکلاء کی صفوں میں وکلاء پر ڈاکٹروں کے تشدد کے واقعہ سے پیدا ہونیوالی اشتعال انگیزی کو برقرار رکھنا وکلاء قائدین کی مجبوری بن گیا اور جب ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم کے ایک عہدیدار کی وکلاء برادری کیخلاف تقریر کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو وکلاء برادری نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ ڈاکٹر تنظیموں کے بقول متذکرہ ویڈیو فریقین میں مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کی ویڈیو ہے جسے اب خود وکلاء نے سوشل میڈیا پر وائرل کرکے پی آئی سی پر حملے کا جواز نکالا ہے جبکہ وکلاء تنظیمیں داعی ہیں کہ یہ ویڈیو متعلقہ ڈاکٹروں نے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد دانستہ طور پر ماحول دوبارہ خراب کرنے کیلئے خود سوشل میڈیاپر ڈالی ہے۔ اس میں جو بھی حقیقت ہے‘ اس سے قطع نظر وکلاء کا پی آئی سی پر حملہ بادی النظر میں حکومت اور انتظامیہ کی غفلت اور بے نیازی ہی کا شاخسانہ ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پی آئی سی پر حملے کیلئے وکلاء کی صف بندی کی رپورٹ انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے حکومت کو پیش کردی گئی تھی۔ اسکے باوجود وکلاء کو گزشتہ روز جلوس نکالنے اور پھر انہیں اسمبلی ہال سے گورنر ہائوس جانے اور وہاں سے جیل روڈ کا رخ کرنے کی بھی اجازت دیدی گئی جہاں سروسز ہسپتال اور پی آئی سی کی سکیورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث وکلاء کو پوری دیدہ دلیری کے ساتھ اپنا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچانے کا موقع مل گیا جبکہ بعض نوجوان وکلاء جلوس کے دوران اور حملہ کے وقت اپنی کارروائیوں کی سوشل میڈیا پر لائیو کوریج بھی کرتے رہے اور ڈاکٹروں کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اگر اسکے باوجود ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کا تردد نہیں کیا گیا تو اس سے حکومتی گورننس کا سوال اٹھنا بھی فطری امر تھا اور عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس افسوسناک واقعہ میں ہونیوالی ہلاکتوں اور دوسرے نقصانات کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ بے شک وزیراعظم عمران خان نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لے کر وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور پولیس حکام سے رپورٹ طلب کی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کابینہ کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے اور باور کرایا ہے کہ پی آئی سی کے واقعہ پر انصاف ہوتا نظر آئیگا اور ظالم کو ضرور سزا ملے گی۔ اسکے باوجود ایسے افسوسناک واقعہ کا رونما ہونا ہی حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے جس میں صوبائی وزیراطلاعات بھی وکلاء کے تشدد سے محفوظ نہیں رہ سکے جبکہ صوبائی وزیر صحت اس واقعہ میں ڈاکٹروں کے احتجاج کے باعث ہسپتال کے اندر بھی داخل نہ ہوسکیں۔ یہ بلاشبہ حکومتی رٹ اور گورننس کا سوال ہے جس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو کل کو کوئی بھی طبقہ یا گروہ کسی معمولی بات کو جواز بنا کر تشدد کا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ اگر اس صورتحال میں خانہ جنگی کی فضا سازگار ہوگئی تو پھر حکومتی رٹ جابجا چیلنج ہوتی نظر آئیگی اس لئے اب بھی وقت ہے کہ فہم و تدبر سے کام لے کر صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہونے سے روک لیا جائے۔ اس کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ وکلاء اور ڈاکٹر تنظیموں کی قیادتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے چھوٹے موٹے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے اپنے اپنے لوگوں کو تشدد کے راستے پر چلانے سے گریز کریں اور پی آئی سی پر حملے کے واقعہ کو مثال بنا کر آئندہ ایسے واقعات کے سدباب کیلئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے جائیں اور اس حملے میں ملوث عناصر کو قانون کے سخت شکنجے میں کیفرکردار کو پہنچایا جائے ورنہ کل کو کسی کی بھی پگڑی‘ گریبان اور عزت کے محفوظ ہونے کی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکے گی۔