جمعۃ المبارک ‘ 15 ؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 13 ؍ دسمبر 2019ء
روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیا۔ سوچی عالمی عدالت میں مکر گئی
’’دروغ گو ‘‘ کی اصطلاح اگر پورے اعتماد کے ساتھ کسی پر فٹ بیٹھتی ہے تو وہ میانمارکی رہنما آنگ سان سوچی ہیں۔ جنہیںدیدہ دلیر جھوٹی کہا جا سکتا ہے۔ عالمی عدالت میں جس ڈھٹائی کے ساتھ انہوں نے جھوٹ بولا اور عالمی عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی وہ دروغ گوئی کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ میانمارمیں وہاں کی ظالم فوج نے جس طرح بے گناہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ انکے دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دئیے۔ خواتین سے زیادتی کی بچوں کے ٹکڑے کئے۔ اس کا ثبوت دنیا بھر کے میڈیا میں محفوظ ہے۔ اب اگر ان کو دن کا سورج نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور۔ دراصل اسی قاتل فوج کے بل بوتے پر آج سوچی میانمار میں حکومت کر رہی ہے۔ اس لیے وہ اپنی سیاسی جدوجہد میں اٹھائی جانیوالی تمام تکالیف کو بھول کر دنیا کے سامنے اپنی ظالم فوج کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہی ہیں۔ دنیا بھر میں جن اداروں نے سوچی کوانسانی حقوق کے سیاسی جدوجہد کے ایوارڈ دئیے تھے وہ اس لیے واپس لئے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد سوچی کا کردار ایک آمر اور فاشسٹ کا رہا ہے جو آج ہی ظالم بھیڑیوں کا ساتھ دیتے ہوئے معصوم بھیڑ بن کر عالمی عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہی ہیں۔ اب اسے بے گناہ انسانوں کے قتل عام کیساتھ عالمی عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے کا مجرم بھی قرار دیا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
2020ء خطرناک سال ہو گا ، بہت سی تبدیلیاں آئیں گی۔ منظور وسان
منظوروسان کا شمار اب پاکستان کے ناکام نجومیوں میں ہونے لگاہے۔انکی کوئی پیشنگوئی گزشتہ کافی عرصے سے پوری ہوتی نظرنہیں آئی۔ اب یار دوستوں کا اعتماد ان کی پیشینگوئیوںسے اٹھنے لگا ہے۔ اب یہ بیان ہی دیکھ لیں جو سیاسی کم اور محکمہ ماحولیات کی طرف سے جاری کی گئی پیشنگوئی زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ 2020ء خطرناک سال ہو گا۔ بہت سی تبدیلیاں آئیں گی۔ یہ تو کب سے محکمہ ماحولیات والے کہتے آ رہے ہیں۔ ویسے بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات سے متاثر ہونیوالے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے اس لئے ہمیں بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ خطرناک تبدیلیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ مگر سنتا ہی نہیں کوئی‘ نہ حکومتوں کواحساس ہے نہ عوام کو۔ دونوں ماحول کو تباہ کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میںمصروف رہتے ہیں۔ یہی صورتحال سیاسی میدان میں نظر آ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ آج کل کرپشن کے الزامات کی زد میں آئی جماعتیں اور ان کے رہنمائوں کو دن رات یہی خواب آتے ہیں کہ حکومت آج گئی کل گئی۔ یہ 2020ء خطرناک سال ہو گا کا بیان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ نیب کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کیلئے البتہ نیاسال بھی خطرناک ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ باقی ہر طرف ’’ستے خیراں ہیں‘‘ اور یہ بات وسان جی بھی بخوبی جانتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مجھ پر تشدد کرنے والوں میں ایک لیگی بھی ہے۔ اغوا کی بھی کوشش کی گئی۔ فیاض الحسن
یہ معاملہ سیاست کرنے کا نہیں۔ لڑائی جھگڑے میں کودنے والے فریق کے ساتھ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جب آپ
کودا تیرے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
والے کام کریں گے تو یہی کچھ ہو گا ۔اب الٹا مخالفین کوملوث کرنا عبث ہے کیونکہ کس کو معلوم تھا کہ فیاض الحسن صاحب بھی اس ہنگامہ آرائی میں تشریف لانے والے ہیں۔ انہوں نے بے جا مداخلت کا سوچا ہی کیوں تھا۔ کیا انہوں نے ’’جس کو ہو جان و دل عزیز تیری گلی میں جائے کیوں‘‘ والا شعر اپنے دور طالب علمی میں نہیں پڑھا تھا۔ جس کی تشریح سمجھاتے سمجھاتے اساتذہ کرام نوخیز طالب علموں کومحبوب کی گلی کی تمام جزئیات تک سمجھا دیتے ہیں۔ جن میں گلی کے کتوں سے لے کر آوارہ لونڈوں اور محبوب کے رشتہ داروں کے ہاتھوں بے عزت ہونے کاتذکرہ بھی خاص طور پر شامل ہوتا ہے۔ یہ تو شکرہے انہیں کالے کوٹ والوں نے راہ ہی سے اچک لیا اگر وہ اندر جاتے تو وہاں بپھرے ہوئے وکلا کے ہاتھوں ان کا بچنا ناممکن تھا۔ باہر ہی باہر وہ رقیبوں کے ہاتھوں بے مزہ ہوکر نکل آئے یہی ان کی بڑی کرامت ہے۔ رہی بات تشدد اور اغوا کی کوشش کی تو اس کی انکوائری وہ خود کروا لیں۔ کیونکہ ایسے حالات یعنی ’’یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں‘‘ سے بچ کر رہنا مناسب ہوتا ہے۔ یہ معاملہ صرف پولیس ہی سنبھال سکتی ہے جو اس مرتبہ پھرناکام ہوتی نظر آتی ہے جو بڑے شرم کی بات ہے۔
٭٭٭٭٭
بھارت میں دولہا اور دلہن کو دوستوں کی طرف سے پیازکاتحفہ
جب پیاز کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو تو اس وقت دولہا اور دلہن کو جو ایک نئی زندگی کی شروعات کررہے ہوتے ہیں، پیاز سے بڑھ کر اچھاتحفہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ وہ تو …؎
’’پیاز‘‘ کا تحفہ تیرا بنا ہے جیون میرا
جینے کو اور کیا چاہئے
کہہ کر یہ تحفہ دینے والوں کا شکریہ ادا کرتے پھررہے ہوں گے۔ سسرال والے علیحدہ سے بلائیں لے رہے ہوں گے کہ کتنی خوش قسمت ہے ہماری بہو کہ اپنے ساتھ کئی کلو پیاز لے کر آئی ہے۔ اب کہیں باقی سسرال والے بھی اپنی آنے والی دلہنوں کے ساتھ پیاز کی بوریوں کی فرمائش نہ کرنے لگ جائیں۔ اس وقت بھارت میں پیاز کی قیمت 100 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔ جس پر پورے بھارت میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پاکستانی کرنسی کے مطابق یہ 190 تا 200 روپے بنتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بھی اکثر پیاز کی قیمت 100 کا ہندسہ عبور کرتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں نت نئے مشورہ دینے والے عقل مند گھریلو امور اور خانہ داری کے ماہر وزیر اور مشیر موجود ہیں جو پیاز کی جگہ کچھ اور ڈال کر ہانڈی پکانے کے مشورے فوراً دینے پر قادر ہیں اس لیے عوام کو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔ بھارت میں شاید اتنے سگھڑ وزیر اور مشیر موجود نہیں ورنہ وہ بھی اپنے مشوروں سے عوام کو رام کر لیتے۔ وہاں تو الٹا ایک دکاندار نے اپنے سیل بڑھانے کے لیے موبائل خریدنے والے کو ایک کلو پیاز فری دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ جس کے بعد معلوم نہیں اس کی دکان کے باہر خریداروں کی کیا حالت ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ٹماٹر فری دینے کا ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔