لاہور میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹروں، انتظامیہ اور وکلا کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ہسپتال کی عمارت اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچا ہے جبکہ حکام نے تین مریضوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ پنجا ب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلا نے ظلم ، بربریت اور بے حسی کی انتہا کردی۔ہنگامہ آرائی کے دوران وکلا نے تشویشناک حالت کی شکار ایک لڑکی کا آکسیجن ماسک اتارپھینکا جس کی وجہ سے وہ وہیں پر تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئی۔انتقال کرنے والی لڑکی کی عمر بائیس سال تھی۔ اسے پانچ روز قبل پی آئی سی منتقل کیاگیاتھا۔ یاد رہے کہ وکلاء رکاوٹیں ہٹا کر ہسپتال میں داخل ہوئے، راستے میں کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، ایمرجنسی کے شیشے توڑ دیے، ہسپتال کے باہر سے بھی اینٹیں برسائیں، باہر کھڑی پولیس موبائل کو آگ لگادی۔
وزیر اطلاعات فیض الحسن چوہان کو بھی نہ چھوڑا، تشدد کا نشانہ بنایا، آنے جانے والوں پر ڈنڈے برسائے، مریضوں کے اہل خانہ زد میں آئے، ڈاکٹرز کو بھی مارا پیٹا، وکلا نے ہوائی فائرنگ بھی کی، صحافیوں کو بھی نہیں چھوڑا ، ایک وکیل نے اسلحے کے زور پر قریبی دکانیں بند کروائیں۔جس صوبے میں ڈیڑھ سال میں پانچ آئی جی بدلے جائیں اس کا یہی حشر ہونا تھا جو آج ہوا۔ہسپتال تباہ ہوتا رہا،لوگ مرتے رہے اور پولیس وکیلوں سے ڈری تماشہ دیکھتی رہی؟ اب تک ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہو جانا چاہئے تھا۔وزراء کرام ابھی تک مذمت میں مصروف ہیں یا اقدام کی یقین دہانیوں میں۔ ہر بحران میں مواقع پوشیدہ ہوتے ہیں۔ موقع ملاہے تو غنڈوں سے نمٹ لیجئے۔ ڈاکٹروں،مریضوں،صحافیوں اور وزیر پر حملہ ریاست پر حملہ،حکومت پر حملہ ہے۔ یہ پاگل پن اور ناقابلِ معافی ہے۔عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ہر تقریر میں ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دینے والے کی حکمرانی ہے اورلاہور میں جو فساد بپا ہوا شرمناک تاریخ رقم کرے گا۔
حکومت اور اسکی رٹ ہو گی تو سزا ہوگی۔ ویسے جب حکومت کو ہوش آئے گا تو پھر کمیٹی کی آڑ میں تمام ثبوت غائب ہوں گے اور پھر معاملہ ٹھپ۔ اگر یہ کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو اب تک مجرم پکڑے جا چکے ہوتے۔ عسکری اور سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھناچاہیے۔ ایک کے بعد دوسرا جتھہ اسی طرح قانون کو ہاتھ میں لیتا ریا تو رہی سہی رٹ بھی ختم ہو جائے گی۔ وعظ ، تلقین اور تجزیے کا نہیں، غنڈہ گردی کو سختی سے دبا دینے کا وقت ہے۔
عدالت میں چند دن قبل حکومت سے ایک سوال پوچھا گیا تھا کہ نوازشریف کو کچھ ہو گیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ آج کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ دل کے ہسپتال میں مرنے والوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے ؟ جب ملک کا وزیر اعظم عسکری قیادت کے سامنے کھڑا ہو کر نوجوانوں کو احتساب کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے پر اکسائے گا تو ایسے افسوسناک مناظر حیرت انگیز نہیں لگیں گے۔ اس ملک میں شرمناک انداز سے تشدد کو سرپرستی ملی ہے۔ لندن مخالفین کے گھر کے سامنے متشدد تماشوں کی ہی ایک کڑی لاہور وکلا کے نوجوانوں نے دکھا دی۔ چند سالوں میں پاکستان میں نفرتیں تشدد فتنہ فساد کا کلچر پروان چڑھا ہے جس پر قابو پانے کیلئے مجاز اتھارٹی کو سنجیدہ فیصلہ لینا ہوگا۔ جمہوریت میں جب ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں گے تو ایمر جنسی کا نفاذ جواز بن جاتا ہے۔ پنجاب میں حالات تشویشناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ تبادلے تبدیلیاں اور عہدوں کے فیصلے جب گھریلو ٹوٹکوں سے ہونے لگیں تو ملک کا یہی حال ہوجاتا ہے جو اس وقت نظر آرہا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب میں شیر شاہ سوری کی روح لوٹ آئے تو پنجاب کو مزید بگڑنے سے بچانے کی سعی کریں کہ پنجاب کے لوگوں کو خادم اعلیٰ کی یاد آنے لگی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024