حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آنجناب کے احکامات کی بجاآوری اورفوری تعمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے، آپ کی ذات والا صفات سے ان کی غیر مشروط وابستگی کا یہ عالم تھا کہ وہ آنجناب کے روئے سخن کا بھی خیال رکھتے اورچہرہ مبارک کے آثار سے آپ کی پسند اورناپسند کو بھانپ کر فوراًاس کے مطابق عمل پیرا ہوجاتے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بیان فرماتے ہیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ریشمی حلّہ بطور ہدیہ مرحمت فرمایا، میںنے اسے خود زیب تن کرلیالیکن میںنے دیکھا کہ آقانامدار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رُخ انور پر میرے اس عمل سے ناپسندیدگی کے آثارہیںتو میںنے وہ کپڑا فوراً اتار دیااوراسے ٹکڑے کرکے اپنے (خاندان کی ) خواتین میں تقسیم کردیا۔(صحیح بخاری)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیںکہ ایک مرتبہ حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ اقدس سے باہر نکلے تو راستے میں آپ کی نظر ایک بلند چبوترے پر پڑی،آپ نے بڑی ناپسندیدگی سے استفسار فرمایا:یہ قبہ کس کا ہے ؟ صحابہ کرام نے ایک انصاری کا نام لیا۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ، اپنی ناراضگی یا خفگی کو الفاظ سے بیان نہیں فرمایا، اس بلند منزلہ مکان کے مالک جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورآپ کی خدمت عالیہ میں سلام عرض کیا تو آپ نے ان کی جانب سے رُخ انورکوپھیر لیا، انھوں نے متعدد بار سلام عرض کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے التفات نہ فرمایا،وہ صحابی اپنے آقا کریم کی ناراضگی سے بڑے پریشان ہوئے ،انھوںنے اپنے دوستوں سے آپ کی عدم توجہ کا ذکر کیااورکہاکہ آج میںنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ عجیب معاملہ دیکھا ہے۔ان کے رفقاء نے بتایاکہ حضورانور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے اس گنبد نماچبوترے کو دیکھا تھا اوراس پر ناراض محسوس ہوئے تھے۔جب انھیں آپ کے عدم التفات کی وجہ معلوم ہوئی تو وہ بلاتاخیر اپنے گھر پہنچے ، کدال پکڑی اوراس مکان کو گرا کر زمین کے برابر کردیا،لیکن خود حاضر خدمت ہوکر یہ بات بتائی نہیں ۔ کچھ دنوں کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس راستے سے دوبارہ گزر ہوااورآپ نے اس قبہ کو موجود نہ دیکھا تو استفسارفرمایاکہ اس گنبد کا کیا ہوا؟صحابہ کرام نے عرض کی،کہ ہمارے اس ساتھی نے ہم سے پوچھا تھاکہ حضور محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کیوں اعراض فرمایاہے؟توہم نے اسے آپ کی ناپسندیدگی کے بارے میں مطلع کردیا تھا، انھوںنے یہ سنتے ہی اس مکان کو مسمار کردیا۔آپ نے ارشادفرمایا:ہر ایک تعمیر اپنے بانی کے حق میں وبال ہے سوائے اس تعمیر کے جو بہت ضروری اورناگزیر ہو، یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے قبہ کو بلاتاخیر مسمار کردینے والے صحابی کو دعا دیتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا: رحمہ اللہ ،رحمہ اللہ ،اللہ اس پر رحم فرمائے ، اللہ اس پر رحم فرمائے ۔(ابن ماجہ)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024