نیب کی طرف سے شروع کئے گئے احتساب نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو یکجا کر دیا ہے۔ دونوں جماعتیں جو باہم دست وگریبان رہی ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں قومی احتساب بیورو کو بیک زبان تنقید کا نشانہ بناتی رہیں۔ جب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک پوائنٹ آف آرڈر پر لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری پر احتجاج کیا اور نیب کی سیاست دانوں کے خلاف کارروائیوں پر اس کی غیر جانبداری پرسوالات اٹھائے تو یہ بحث حکومت اور اپوزیشن میں ایک طرح کا شاؤٹنگ میچ SHOUTING MATCH بن گئی۔ شاہد خاقان عباسی نے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کو انتقامی کارروائی قرار دیا۔ سابق وزیراعظم نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری سے جو اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے مطالبہ کیا کہ وہ قومی اسمبلی کے رکن خواجہ سعد رفیق کے پروڈکش آرڈر جاری کریں۔ عموماً جب ہمارے ہاں احتساب کی بات ہوتی ہے تو ہر سیاست دان یہ کہتا ہے کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے اور سب سے پہلے اس سے احتساب شروع کیا جائے جب اکاؤنٹبیلٹی شروع ہوتی تو اسے انتقامی کارروائی قرار دیا جاتا ہے۔
جنرل ایوب خان نے جب اکتوبر 1958ء میں ملک میں مارشل لاء لگایا تو انہوں نے ماضی میں حکومت میں رہنے والے سیاست دانوں کا احتساب شروع کیا۔ اقتدار میں رہنے والے سیاست دانوں کو نااہل قرار دینے اور ان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی۔ اس بل کو ایبڈو کا نام دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962ء میں ملک کو نیا آئین دیا۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام رائج کیا اور اپنی سیاسی جماعت کنونشن مسلم لیگ کے نام سے بنائی۔ کنونشن لیگ 1968ء تک اقتدار میں رہی۔ ایوب خان متحدہ پاکستان کے طاقت ور صدر رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ان کے خلاف 1968ء میں احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو انہیں ایبڈو زدہ سیاست دانوں کو رہا کرنا پڑا۔ جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977ء کو جب مارشل لاء لگایا اور بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس وقت بھی ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کے خلاف احتساب شروع کیا گیا۔ نوے دن میں انتخابات کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا جنرل ضیاء الحق کا وعدہ پس پشت ڈال دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق گیارہ برس تک پاکستان میں اقتدار میں رہے۔ ایک حادثہ میں اگر وہ جاں بحق نہ ہوتے تو ان کا ارادہ اکتوبر 1988ء میں ایک اور غیر جماعتی الیکشن کراکر مزید پانچ برس اقتدار میں رہنے کا تھا۔
جنرل مشرف نے موجودہ نیب کا ادارہ قائم کرکے کرپٹ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب شروع کیا لیکن احتساب کے دائرہ سے ججوں‘ جرنیلوں اور صحافیوں کو نکال دیا۔ جنرل مشرف نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نیب کے نام سے جو ادارہ قائم کیا وہ اب بھی موجود ہے اور نیب آڈریننس کے تحت اب بھی فعال ہے۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ دونوں نے نیب قوانین بدلنے اور نیب کی جگہ نیا ادارہ بنانے کا اعلان کیا لیکن دس برس میں دونوں جماعتیں نہ تو نیب آرڈیننس میں ترمیم کرسکیں اور نہ اس کی جگہ احتساب کا کوئی نیا ادارہ قائم کرسکیں۔ اب دونوں جماعتوں نے نیب کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے۔ اس وقت دونوں جماعتوں کی قیادت نیب کے بنائے ہوئے مقدمات بھگت رہی ہیں۔
گزشتہ روز جب شاہد خاقان عباسی نے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کا معاملہ ایوان میں اٹھایا تو انہیں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ سابق وزیر خرانہ نوید قمر نے بھی ایک پوانٹ آف آرڈر پر خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کی مذمت کی اور اسے انتقامی کارروائی قرار دیا۔ نوید قمر نے بلاول بھٹو کو نیب کی طرف سے بھیجے گئے نوٹس کا حوالہ دیا اور کہا کہ بلاول بھٹو سے ان معالات کے بارے میں سوالات پوچھے جارہے ہیں جب وہ ایک سال کے تھے۔ پیپلز پارٹی کی چوٹی کی قیادت بھی نیب کے شکنجے میں آرہی ہے اس لیے پیپلز پارٹی اب نیب کو ہدف بنا رہی ہے۔ نیب نے (ن) لیگ اور پی پی پی کے درمیان فاصلوں کو قربتوں میں بدل دیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے حسب روایت اپوزیشن کی تنقید کا جواب دینے کیلیئے وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کو آگے گیا۔ وزیر اطلاعات اپوزیشن پر اپنے مخصوص انداز میں حملہ آور ہوئے اورکہا کہ سعد رفیق کو ہائی کورٹ میں ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار کیا گیا۔ وزیراطلاعات کی تقریر کے دوران (ن) لیگ کے عقبی بنجوں پر بیٹھے ارکان خاص طور پر خواتین ارکان جن میں مریم اورنگ زیب نمایاں تھیں۔ فقرے کسے بار بار ان کی تقریر میں خلل ڈالا گیا۔ وزیر اطلاعات نے (ن) لیگ کے بیک بنچز کا خوب مقابلہ کیا اور کہا کہ جو ارکان شور کررہے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ان کی باری بھی آنے والی ہے۔ نیب اور احتساب پر تحریک انصاف اور اپوزیشن کے درمیان وہی جملہ بازی ہوتی رہی ۔ جو پریس گیلری میںبیٹھے صحافی ایک عرصہ سے سنتے چلے آرہے ہیں ۔ لیکن نیب اگر ٹھوس بنیادوں پر کیس تیار کرکے عدالتوں میں پیش کرنے میں بھی ناکام رہا تو احتساب کا موجودہ عمل بھی ماضی کی طرح ایک کار بحث ہی رہے گا۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024