سادہ سی بات ہے جب آپ چوری بھی کریں ،سینہ زوری بھی کریں، نیب پربھی برسیں، حکومت پر بھی برسیںاور ملک کی معیشت کا بھی بیڑہ غرق کردیں تو ایسا کیسے ممکن ہوگا کہ آپ بچ سکیں گے؟آج سعد رفیق اوراُن کے بھائی خواجہ سلمان کو نیب حکام نے کرپشن کے کیسز میں پکڑ لیا۔اس کے ساتھ ساتھ حمزہ شہباز کو بیرون ملک جانے سے پہلے ہی ’’آف لوڈ‘‘ کردیا گیا اور مریم اورنگ زیب کے اثاثوں کی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے، گزشتہ روز یقینا ن لیگ کے لیے ایک مشکل ترین وقت تھا۔ کل نیب کے دفاع کرنے والے نواز، شہباز سے مریم اورنگزیب تک، زرداری، بلاول سے ڈاکٹر عاصم تک سب نیب پر گرج، برس رہے ،سعد رفیق نے تو قومی اسمبلی میں ڈی جی نیب کو’’سرکاری سانڈ‘‘ قرار دیا ، احد چیمہ پکڑا جائے، پنجاب اسمبلی میں قرارداد مذمت ،فواد حسن فواد گرفتار ہو الزامات ہی الزامات ،قمرالسلام گرفتار ہو ،بچے ریلیاں نکالیں،لوگ ہار پہنائیں، میڈیا انٹرویو کرے اور بے قصور بے قصور کے نعرے لگیں۔
لیکن نیب کا کام احتساب کرنا ہے، خواہ ایک روپے کی کرپشن ہویا ایک کھرب روپے کی ۔ اس کا طریقہ کار ایک ہی ہے۔اب جبکہ ان دونوں بھائیوں کو پیراگون ہائوسنگ سکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کیا ہے تو یقینا کئی چیزیں سامنے آئیں گی۔ چند ماہ قبل آنے والی ایک آڈٹ رپورٹ میں پاکستان ریلوے کے اندر 80 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف کیا گیا ہے اور قومی اسمبلی کو یہ سفارش کی گئی ہے کہ ریلوے حکام سے یہ لوٹ مار کی رقم واپس دلوائی جائے اور اعلیٰ سطح پر اسکی تحقیقات کروائی جائیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوئے میں گذشتہ مالی سال کے دوران 95 ارب 38 کروڑ36 لاکھ39 ہزار روپے کے اخراجات کیئے گئے۔ جس میں سے 58ارب73کروڑ14لاکھ60 ہزارروپے کی ادائیگیوں کا آڈٹ کیا گیا۔ کمزور مالیاتی کنڑول کی وجہ سے محکمہ ریلوے کو تقریباً 5 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا جبکہ تقریباً 21 ارب روپے مالیاتی کرپشن کی نذر ہوگئے۔یہ تحقیقاتی رپورٹ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں ایسے ایسے ہوشربا کرپشن اور بدعنوانیوں کے قصے موجود ہیں کہ چیف جسٹس کو یہاں تک کہنا پڑ گیا کہ ’’یہ تو نیب کا کیس ہے‘‘ جب خواجہ سعد رفیق سے ریلوے کے خسارے کے متعلق جواب مانگا تو انہوں نے کہا کہ ’’میں کوئی اکاؤنٹس آفیسر نہیں ہوں جو اس رپورٹ کا جواب دوں۔ اس کا جواب جمع کروانے کے لیے مجھے ایک ماہ کا وقت دیجیے‘‘۔ان ایک ہزار صفحات میں کیا لکھا ہے ، اس بارے میں جاننے کے لیے اگر رپورٹ پر سرسری نظر ڈالی جائے تو علم ہوگا کہ ریلوے انجنز کو خراب ڈیکلئیر کر کے بھاری رقوم کے عوض مرمت کروائی گئی، ریلوے زمینوں کو اپنی ہی ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں شامل کر کے پیسے کمائے گئے۔ جن لوگوں نے پرانے ادوار میں زمینوں پر قبضے کر رکھے تھے، ان کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے ان سے بھتہ لے کر مک مکا کر لیا گیا ۔ ایک اندازے کے مطابق 8 ارب روپے کی مالیت کا سامان ریلوے سے چوری کیا گیا جس میں افسران اور وفاقی وزیر خود شامل ہیں۔ 12 ایکٹر زمین بہاولپور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹی کو بیچ کر پیسے کھرے کیے گئے۔ریلوے اکوئیپ منٹس (سگنلز، لیپ ٹاپس، سافٹ وئیرز و دیگر کمپوٹرائزڈ سامان) خریدنے کے لیے جعلی کوٹیشنز دی گئیں اور اربوں روپے کمائے گئے۔
تقریباً 72 ارب روپے کی مالیت کی زمین ریلوے کی ملکیت سے نکل کر پرائیویٹ ملکیت بن چکی ہے (اس پر موجودہ حکومت نے ایکشن لے کر یہ زمین واگزار کروائی ہے)۔ آٹو میٹک ٹرین پروٹیکشن سسٹم کی خریداری کے نام پر لمبے گھپلے کیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ڈیڑھ کروڑ کا ٹیکہ تھا۔چین کی کمپنیوں سے گھٹیا کوالٹی کی بوگی اور انجن خرید کر اربوں روپے کے کرپشن کی اور اس وقت یہ بوگیاں اور انجن ورکشاپ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کنسورشم کے ذریعے جو جنریٹرز منگوائے تھے وہ جرمنی کے تھے لیکن کنسورشیم نے چینی جنریٹرز مہیا کیے اور ساڑھے پانچ ارب روپے کس کی جیب میں گئے، یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ایک اندازے کے مطابق موصوف کے دور میں ریلوے میں ساٹھ ارب روپے سے زائد کی کرپشن کی گئی ہے۔
ا ب یہ رپورٹ دیکھ کر بہت سارے لوگ حیران اور پریشان ہونگے کہ انہوں نے تو آج تک وفاقی وزیر ریلوے کو منہ ٹیٹرھا کرکے ریلوے میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے دعوئے ہی سنے تھے لیکن مجھے اُس حیرت زدہ طبقے کی حیرت پر حیرانگی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اس ارِض پاک میں ہر دوسرے دودھ فروش کی دکان کے باہر جَلّی حَروف میں ’’خالص دودھ دستیاب ہے‘‘ کا نعرہ آپ نے نہیں دیکھا؟ بلکہ اکثر و بیشتر دودھ فروشوں کی دکان کے باہر نمایاں یہ لکھا نظر آتا ہے کہ’’ دودھ میں ملاوٹ ثابت کرنے پر اتنے لاکھ روپے انعام دیا جائے گا‘‘۔ اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ ایسی تمام دکانوں میں ملنے والا دودھ کتنا خالص ہوتا ہے۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولنا ہمارا قومی وطیرہ بن گیا ہے۔ اور اگر سعد رفیق بھی دور حاضر کا گوئے بل بن گیا ہے جسکا نظریہ یہ تھا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ جھوٹ سچ لگنے لگے تو اس پر حیرت بنتی نہیں ہے۔
جہاں تک دعوؤں کا تعلق ہے تو اُن میں ناکامی سعد رفیق کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ موصوف کی قیادت شہباز شریف کر رہے ہیں جنہوں نے ببانگ دہل عوامی اجتماعات میں یہ کہا تھا کہ اگر دوسال میں بجلی کے بحران کو میں نے جڑ سے نہ اُکھاڑ پھینکا تو میرانام بدل دیجئے گا۔ دوسال تو کیا ساڑھے تین سال گزر گئے بجلی کا بحران ویسے کا ویسا ہی ہے اور کس میں جرأت کہ وہ شہباز شریف کو یہ یاد دلائے کہ جناب اب نام بدلنے کا وقت آگیا ہے۔میرے جیسے کچھ کم عقل اس بات پر حیرت زدہ ضرور ہونگے کہ ایک جمہوری حکومت عوام کے ساتھ کس قدر واشگاف جھوٹ کیسے بول سکتی ہے؟ لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ اس ارض پاک میں سیاست کو جھوٹ کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے۔اور غیرضروری ڈرامہ بازی ہماری جمہوریت کا حسن ہے۔ اگرچہ اس قوم کا حافظہ بے پناہ کمزور ہے مگر شاید اتنا ناتواں بھی نہ ہوا ہے کہ وہ سابق دور حکومت میں مینارپاکستان کے سائے تلے ہتھ پنکھیوں سے ہوا لیتے خادم اعلیٰ کے اُن اجلاسوں کو بھول گئے ہوں ! جن کا مقصد وفاقی حکومت کو بجلی کے بحران پر شرم دلانا تھا۔ لیکن اب موصوف اس جھوٹ کی بدولت قید ہیں اور عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اب جبکہ نیب نے احتساب کرنے میں عجلت کے بجائے تیزی دکھائی ہے تواسے ’’ریکوری‘‘ میں بھی تیزی دکھانا ہوگی۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر کی احتساب عدالتوں میں 895.279ارب روپے کی کرپشن کے ریفرنس زیر سماعت ہیں۔ آپ اندازہ لگا لیں اگر صرف کرپشن کی یہ رقم ہی واپس آجائے تو ملک کا کتنا فائدہ ہوگا۔ نیب کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق نیب ریفرنسز میں احتساب عدالتوں سے سزاؤں کا تناسب 77فیصد ہے۔ اس طرح اگر یہی مان لیا جائے کہ ان زیر التوا ریفرنسز میں بھی سزاؤں کا تناسب 77فیصد ہی رہے گاتو پھر بھی قوم کو 689.36ارب روپے مل سکتے ہیں۔
اور اہم بات یہ ہے کہ 1999ء سے اب تک نیب نے 296 ارب روپے کی وصولی کی ہے جس کا زیادہ تر حصہ کاروباری شخصیات اور سرکاری افسران سے وصول کیا گیا ہے۔جبکہ سیاسی شخصیات سے وصولی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں سابقہ دور میں اگر روزانہ کی بنیاد پر 6ارب روپے کی کرپشن ہو رہی تھی تو آخر حکومت اور ادارے سو رہے تھے؟ ملک میں کرپشن کو لگام دینے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ احتساب سب کا ہو اور بلا امتیاز ہو۔ تبھی کسی ادارے کا خوف سیاستدانوں، بیوروکریسی اور کاروباری حضرات کے دل میں پیدا ہوگا ورنہ ہم سب اچھا ہے کا گن گاتے رہیں گے اور ملکی معیشت تباہ ہوتی رہے گی۔ اور ہم ہر پانچ سال بعد کسی دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے رہیں گے مگر ہو گا کچھ نہیں۔ لہٰذا اگر احتساب کا عمل تیز ہو چکا ہے تو ہم سب کو اس کا ساتھ دینا چاہیے، مخالفت برائے مخالفت کرنے کے بجائے ہمیں ملکی مفاد کی خاطر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب اس ملک کی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024