بات صرف ’’احساس ‘‘ کی ہے !!
زیادہ پرانی نہیں یہ گزشتہ جمعرات ہی کی بات ہے کہ جب دروازے پر ہونے والی کھٹ کھٹ سے آنکھ کھل گئی تھی دن کے ڈیڑھ یا دو بجے ہوں گے اورلیکن ایک منٹ ذرا ٹھہر جا ئیے!! بھئی دن کے اُس پہر میںسوکیوں رہا تھا اسکی وضاحت یہاں بیان کر نا اشد ضروری ہے کیونکہ یہ تحریر اس و ضاحت کے بغیر نامکمل اور بے مقصد سی محسوس ہو گی تو جناب وجہ یہ تھی کہ جمعرات سے پہلے آنے والے دن یعنی بدھ کی شب میں ایک شادی کی تقریب میں مدعو تھا ۔شادی تھی میرے ہر دلعزیز دوست فردوس سلیمان قدوسی کی ( پورا نام پکارنا تو کافی وقت طلب معلوم ہوتا ہے اسلیئے تقاضہ مصروفیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے دوست کو صرف قدوسی ہی کہنا اچھا لگتا ہے ) سرخ پھولوں میں پرویا خوشبوئوں سے مہکتا قدوسی سر پر سہرا باندھے اُس دن بہت خوش تھا شادی پسند سے کی تھی لیکن رضامندی والدین کی بھی شامل تھی سو زندگی کے ایک نئے سفر کا آغاز دعائوں اور نیک تمنائوں کے سائے تلے ہو رہا تھا ۔ خوشی کا اندازہ شادی کی تقریب کو دیکھ کر بھی لگایا جاسکتا تھا مقامی شادی ہال میں منعقدہ پروگرام میں دولہا دلہن کے لیے بنایا جانے والا اسٹیج قابلِ دید تھا جس تک پہنچنے کے لیے گہرے لال رنگ کے دبیز قالین کو ایک سمت میں بچھایا گیا تھا ، ہال میں نصب نت ، نئی ملٹی شیڈز لائٹوںنے ماحول کو کافی حد تک رنگ برنگا سا کر دیا تھا ۔ کھانے کا وقت قریب آیا تو 12 کے قریب بہت سی گرما گرم اور کچھ ٹھنڈی ڈشزکو دیکھ کر بھوک مزید بڑھتی ہوئی سی محسوس ہوئی ۔ بریانی ، مچھلی، کڑہائی ، قورمہ ، حلیم ، آئس کریم وغیرہ ، وغیرہ کو دیکھ کر سب سے پہلے کیا کھایا جائے جلد از جلد یہ فیصلہ کرنا ذرا دشوار معلوم ہو رہا تھا ۔ بہرحال میزبانوں کی جانب سے بلا وا دیتی آ وازیں سنتے ہی مہمانوں نے کھانے سے پوری طرح انصاف برتنا شروع کر دیا تھا بہت سے تو ایسے بھی تھے جنہوں نے ہوکے میں نکال جتنا لیا تھا ، کھایا اُتنا نہیں تھا۔ کہیں کہیں تو صرف د وچار چمچے لے کر ہی پلیٹوں میں پورا کھانا چھو ڑ دیا گیا تھا ۔ اب کولڈ ڈرنک کو ہی لے لیجیے پینی تو شاید ایک ہی تھی لیکن حفظِ ما تقدم کے طو ر پر رکھ پاس تین ، تین لی تھیں ۔ اس پر ستم ظریفی تو یہ کہ پہلی تو ابھی پوری ہوئی نہیں کہ دوسری اور تیسری کو تھوڑا سا سپ لے کر جھوٹابھی کر دیا جاتا ہے ۔ اب جناب ہمارے یہاں کی وہم پرستی سے تو آپ اچھی طرح واقف ہی ہیں ، شادی ہال میں کسی ٹیبل پر رکھی بوتل چھوئی نہ بھی ہو تو دل میں آنے والے اس خیال سے کہ کہیں یہ کسی کی جھوٹی نہ ہو ‘کوئی نہیں پیتا۔ خیر کھانے کے بعد ــتصویریں ا ور مووی بنوانے کا دور شروع ہو پھر رخصتی اور پھر مجھے گھرپہنچتے ، پہنچتے صبح کے چار بج چکے تھے ۔اب آ جائیے جمعرات کے دن دی جانے والی دروازے کی اس دستک پر ۔بیٹا کچھ کھانے کو مل ِ جائے گا ، بہت بھوک لگی ہے ، دو دن ہو گئے کچھ نہیں کھا یا۔ دروازہ کھولا تو چہرے پر سفید داڑھی اور سر پر ٹوپی پہنے ، ضعیف العمر اور انتہائی لاغر سے ایک صاحب کھڑے تھے جنہوں نے نظریں جھکائے اپنی بات کہی تھی‘ بات کہنے کا انداز اور ان صاحب کا حلیہ دیکھ کر ایسا لگ نہیں رہا تھا کہ مانگنا انکا کام یا پیشہ ہے اور ان صاحب کے چہرے پر کچھ خاص بات تھی کسی خاص تکلیف کا عکس جو دیکھنے والے کو صاف دکھائی دے سکتا تھا !! جی ایک منٹ ‘دوپہر کا کھانا تیار تھا سو اُسی میں سے انہیں بھی دے دیا۔ آپ کا نام کیا ہے‘پتہ نہیں کیوں بس غیر ارادی طور پر ہی سوال لبوں پر آگیا تھا ’عبدالقدوس‘ بہت شرمندگی ہوتی ہے جب کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے بہت برا لگتا ہے لیکن بس مجبوری یہ سب کروا رہی ہیــ۔ ان صاحب کی آنکھیں نم ہونا شروع ہوگئی تھیں ‘ اس بھری دنیا میں ایک ہی بیٹا تھا جو شادی کے بعد ایسا الگ ہوا کہ اب پلٹ کر خبر ہی نہیں لیتا۔ لوگ بھی عجیب ہیں ایک روٹی کو نہیں پوچھتے صبح دیکھتے ہیں ہم تھیلیوں میں بھر بھر کر کھانا کچرے خانے پر تو پھینک دیتے ہیں لیکن اس سے کسی ضرو ت مند کا پیٹ بھر جائے یہ شاید انہیں گوارا نہیں ۔عبدالقدوس صاحب اپنی آپ بیتی سنا رہے تھے اور انکی باتیں سنتے ہوئے نہ جانے کیوںلیکن میرے ذہن میں گزشتہ شب قدوسی کی شادی میں کھانے کے وقت کے مناظر گھوم رہے تھے ۔ اچھا بیٹا پروردگار تمہیں اس کا بہترین اجر دے ‘ یہ دعا دے کر وہ چلے گئے تھے ۔ عبدالقدوس صاحب چلے تو گئے لیکن اپنے پیچھے کئی چبھتے ہوئے سوالات چھوڑ گئے تھے ۔ بیٹے نے جو کیا سو کیا لیکن محلے دار، آس پڑوس اور جاننے والے لوگوں نے کیا کیا ؟کسی نے صبح کا تو کوئی دوپہر کو اور اسی طرح کسی کی طرف سے رات کے کھانے پینے کی ــذمّہ داری لے لی جاتی تو نوبت یہاں تک ہر گز نہ پہنچتی ۔ رزق کو ضائع اور رزق کی بے حرمتی ہمارے معاشرے میں عام سی بات ہو گئی ہے لیکن اب اس بات کو مزید عام نہیں رہنا چاہیئے۔لوگ اپنی زندگیوں میں مشکلات کا شکار ضرور نظر آتے ہیں لیکن آج بھی بہت سے صاحبِ استطاعت خاندان اور افراد ایسے ہیں جو عبدالقدوس صاحب جیسے لوگوں کی کفالت با آسانی کر سکتے ہیں اور یقیناََ کر بھی رہے ہوں گے بات صرف احساس کی ہے اس خیال کی ہے جو کسی کے درد کو کسی کی تکلیف کو اور کسی کی بھوک کو محسوس کر سکے۔