زوال پذیر انسانی حقوق کی بحالی
انسانی معاشرہ ترقی کے کئی مراحل و مدارج طے کرتے ہوئے آج اس شکل میں رونما ہوا ہے جو انسان کو اسکے شرفِ انسانیت کیساتھ قبول کرتاہے ، اسکے بنیادی حقوق کے تحفظ کا اعلان کرتا ہے اور اس راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو ممکنہ حد تک دور کرنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ انسانی معاشرہ حقوق و فرائض کی تقسیم سے ہی وجود میں آتا ہے اوران حقوق وفرائض کے ایک متوازن نظام سے ہی یہ معاشرہ پروان چڑھتا اورترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان کے ان بنیادی حقوق سے انکار اور روگردانی سے ظلم ، جبر، ناانصافی،غلامی اور عدم مساوات جیسی قبیح معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی انسانی معاشرہ ظلم و ناانصافی اوراستحصال کی بنیاد پر زیادہ دیر تک امن و امان قائم نہیں رکھ سکتا۔ دنیا میں انسان روزِ اوّل ہی سے ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم، جابر و مجبور اور آقا و غلام کے دو متحارب و متضاد طبقوں میں منقسم رہا ہے جس میں ایک طبقہ حقوق غصب کرنیوالوں کا رہاہے جبکہ دوسراطبقہ ان حقوق سے محروم ہو جانیوالوں کا ہے۔ استحصال کرنیوالی قوّتوں اور استحصال کا شکار ہونیوالوں کے درمیان چپقلش کا سلسلہ بھی روز اوّل ہی سے جاری ہے۔اس سلسلے میں ظالم کے ظلم اور جابر کے جبر سے نجات حاصل کرنے اور اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے انسانیت نے بڑی قُربانیاں بھی دی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ِ رنگ و نسل، جنس و قومیت اور زبان و جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر بنی نوع انسان کے درمیان تفریق اور امتیازی سلوک انسانیت کی بدترین تذلیل و تحقیر کے سوا کچھ نہیں۔معاشی و سماجی استحصال انسانوں کو غلام بناکر رکھنے کیلئے ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس استحصال نے وقت کے ساتھ ساتھ کئی شکلیں تبدیل کی ہیں۔ قبائلی، جاگیرداری و وڈیرا شاہی، سرمایہ دارانہ اور آمرانہ نظام اسی استبدادی و استحصالی نظام کی مختلف شکلیں ہیںجنہوںنے تاریخ کے اوراق میںکئی انسانیت سوز واقعات، سانحات اور رجحانات کو جنم دیا ہے۔جنگِ عظیم اول و دوم کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اقوامِ متحدہ نے دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے درمیان بھائی چارے، باہمی احترام اور وسیع تر امن کے قیام کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا ایک ڈھانچہ مرتب کیا جسے "انسانی حقوق کا عالمی منشور" کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کو 10 دسمبر 1948 کو منظور کیا اور اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک نے اس منشور کو تسلیم کیا ہے اور اس عالمی فورم پر یہ عہد کیا ہے کہ وہ ہر صورت انسانوں کے ان بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔انسانی حقوق کایہ عالمی منشور انسانوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ ہر انسان کے بلا امتیاز عزّت و حرمت اورمساوی و ناقابلِ انتقال حقوق کو یقینی بنانے ہی سے دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیادڈالنا ممکن ہے اوریہ کہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور اُنکی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ اور غیر انسانی افعال کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جس سے انسانیت کے ضمیر کو سخت صدمے پہنچتے ہیں ۔ اس منشور میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ہمیشہ ہی سے انسانوں کی یہ ارفع ترین آرزو رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور عقیدے پر قائم رہنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور وہ ہر قسم کے خوف و خطر سے محفوظ رہیں۔ اس منشور میں اس انسانی ضرورت کا بھی احساس کیا گیا ہے کہ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان ظلم و ستم سے تنگ و عاجز آکر جبر و استبداد کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر مجبور ہوجائیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانون کی عملداری کے ذریعے محفوظ بنایا جائے۔ مزید یہ کہ انسانی حقوق کے احترام ہی کی بنیاد پر قوموں کے درمیان دوستانہ اور خوشگوار تعلقات کو فروغ دیا جائے۔اقوامِ متحدہ کے اس منشور کے ذریعے اسکی رکن قوموں نے بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر، مردوں اور عورتوں کے بلا امتیازِ جنس مساوی حقوق، وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشی و سماجی ترقی کو تقویت دینے اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے کا مصمّم ارادہ کیا ۔ علاوہ ازیں، اس عزم کا اعلان بھی کیا ہے کہ وہ خود بھی اقوامِ مِتحدہ کے اشتراکِ عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گی اوردوسروں سے بھی کرائیں گی۔ قوموں کے اس عہد کی تکمیل کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سمجھیں اور خلوصِ نیت کیساتھ ان پر عمل درآمد کریں اور عملی اقدامات کریں۔ اس منشور میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشوردنیا کی اقوام کیلئے حصولِ مقصد کا مشترک معیار ہو گا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ اس منشور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تشہیر کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین الاقوامی سرگرمیوںکے ذریعے رکن ممالک سے منوانے کیلئے بتدریج کوششیں کریں۔یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کی کاوشوں کے باوجود بھی انسانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے اور انسانی حقوق کے اس عالمی منشور میں بیان کردہ آزادیاں اور حقوق انہیں میسّر نہیں۔صحت بخش اور متوازن خوراک، صاف پانی، معیاری تعلیم ، محفوظ رہائش جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی ریاست کے تمام افراد تک فراہمی ایک ایسا خواب بن کر رہ گئی ہے جسکے شرمندۂ تعبیر ہونے کے راستے میں کئی فلک بوس اور آہنی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کے اس عالمی منشور کے اعلان کو سترسال ہوگئی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ریاستوں کے ہاتھوں بھی، جنہوں نے اس عالمی منشور کو تسلیم کیا اور پھر اسکی توثیق بھی کی ہے، انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا جُرم سرزد ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے اور جس میں بھارت میں کشمیریوں پر ظلم اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے اس ادراک و احساس کے باوجود طاقتور کا ہاتھ ظلم سے نہیں روکا جا سکا اور دنیا کے طول و عرض میں انسانیت کیخلاف ان جرائم کا سلسلہ جاری ہے لیکن یہ امر بھی یقینی ہے کہ اگر ظلم و ستم اور ناانصافی کا راستہ نہ روکا گیا تو اس پامالی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔اسے انسانیت کا بدترین المیہ کہاجاسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسان اور انسانیت کیساتھ نفرت انگیز سلوک جاری ہے جسکے خلاف اکّادکّااور کمزور آوازیںہی سنائی دیتی ہیں۔ دنیا میں ظالم و جابر کے ہاتھوں سے بزورِ طاقت اپنے حقوق چھین لینے کی روایت نے مزاحمت کی داغ بیل ڈالی ہے جس کا ایک بڑا حصّہ اب مسلح جدوجہد کا روپ دھار چکا ہے۔ عراق، شام، یمن،لیبیا، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے خطّے معصوم انسانوں کے خُون سے رنگین ہو چکے ہیں اور یہ تمام مسائل پوری دنیا کیلئے بالعموم اور عالمِ اسلام کیلئے بالخصوص ایسے ناسور بن چکے ہیں جن پر عالمی برادری کا ضمیر خوابیدہ بلکہ مردہ دکھائی دیتا ہے۔اب یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ہی ذمہ داری ہے کہ ظلم و ستم اور جبر کے ہاتھوں کو روکیں۔ امن پسنداور انسانی حقوق کی علمبردزر قوّتوں کو انسانی حقوق کی بحالی کے اعلیٰ مقاصد میں اسی صورت کامیابی مل سکتی ہے جب معاشی مفادات کی سطح سے اوپر اُٹھ کر اور محروم و مظلوم طبقہ کی مشکلات و مصائب اور اسکے ردِّعمل کے نتیجے میں تشکیل پاتی ایک غیر محفوظ دنیا کو مدِّنظر رکھتے ہوئے زبانی جمع خرچ سے ایک قدم آگے بڑھا جائے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کوششیں کی جائیں اوراس غرض سے قابلِ عمل، ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کئے جائیں ورنہ انسانی حقوق کے ایسے منشوروں کی حیثیت محض کاغذ کی ایک بے جان دستاویز کی سی رہ جائیگی ۔