اسرائیل کی نظریں پاکستان پر…(ساتویں قسط)
چلکو ٹ رپورٹ کی صداقت کا اس بات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس رپورٹ کو نہ تو امریکہ نہ برطانیہ اور نہ نیٹو اتحادی ممالک میں کسی نے غلط کہا اور نہ ہی تردید کی۔ اس کے باوجود عراق سمیت کسی مسلم ملک نے اس رپورٹ کو بنیاد بناکر اسلام دشمن ممالک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ حالت نزع کے کس انتہائی درجے تک جاپہنچی ہے کہ ہم اب اف بھی نہیں کرسکتے۔ نائن الیون کے ڈرامہ کے بعد باقی بچے چار ممالک نشانے پر تھے جن میںترکی‘ ایران‘ افغانستان اور پاکستان‘اس وقت افغانستان میںطالبان کی اسلامی حکومت تھی اس سے تمام دشمنان اسلام کو خطرات لاحق تھے کہ کہیں یہ نظام شریعت جو افغانستان میں کامیابی سے چل رہا تھا۔ پھیل کر پاکستان سمیت دوسرے مسلم ممالک تک نہ پہنچ جائے۔ جنرل حمید گل مرحوم کہا کرتے تھے کہ نائن الیون ڈرامے کے بعد نائن الیون بہانہ‘ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے۔ پاکستان مسلم امہ کی واحد ایٹمی طاقت ہے جو دشمنان اسلام خصوصاً صیہونی ریاست کے لئے مستقل درد سر ہوسکتی ہے۔ اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت جاری رہتی تو عین ممکن تھا کہ پہلے مرحلے میں ترکی‘ پاکستان اورافغانستان ایک پیچ پرآجاتے پھر آہستہ آہستہ دیگرعرب ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اپنے تحفظ کے لئے تین ملکی اتحاد کی چھتری تلے آجاتے پھر اسکے بعد دیگرایشیائی اور افریقی ممالک بھی بتدریج اس اتحاد میں شامل ہوجاتے۔1921ء میں ہنری فورڈ نے جوکہا تھاکہ غیر یہود کی حکومتوںکے حصے بخرے کرنا اوردوسرے فلسطین میں صیہونی ریاست بنانا ہے۔ ہنری فورڈکے کہنے کے مطابق 1924 میں سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہوئے گویا سب سے عظیم نقصان امت مسلمہ کو ہی اٹھانا پڑا تھا کیونکہ مغربی ممالک کا اس سے قبل کوئی اتحاد نہیں جوٹوٹتا۔البتہ صرف آدھا درجن یورپی ممالک دوسری جنگ عظیم کے بعد1944ء سے 1991ء تک آزاد ہوتے رہے جن میں اٹلی‘ آئس لینڈ‘ چیک ری پبلک‘ قبرص‘ کروشیا اور آسٹریا جیسے ملک شامل ہیں باقی مغربی ممالک صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔ دراصل وثائق یہودیت میں موجود دنیا پر قبضے کے منصوبوں میں پہلا ٹارگٹ امت مسلمہ تھی اس کے بعد دیگر یہود ممالک ان کا ہدف ہونگے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ1905ء میں دنیا بھر میں منظر عام پر آنے والی کتاب و ثائق یہودیت کی شہرت کے باوجود سلطنت عثمانیہ کے سلاطین نے اس سے اغماض کیوں برتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت عثمانیہ خود زوال کے سفر پر تیزی سے گامزن تھی اگرچہ کہ تین مختلف سیاسی تحاریک امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے کام کررہی ہیں جن میں(1) پان ترک ازم(عثمانی اتحاد)‘(2) پان اسلام ازم(اسلامی اتحاد) اور(3) پان توارزم ترکوں(تورانی)‘ کا اتحاد شامل تھے۔ پان اسلام ازم(اسلامی اتحاد) کی تحریک کو سلطان عبد الحمید ثانی اور جمال الدین افغانی بڑی کامیابی سے چلارہے تھے۔ وہ مغربی ممالک کی سازشوں سے بخوبی واقف تھے۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ صلیبی جنگ ابھی تک جاری ہے مغربی ممالک نے جو کبھی سلطنت عثمانیہ کی طاقت سے خائف اور مرعوب رہتے تھے مغرب میں صنعتی انقلاب کے بعد سلطنت عثمانیہ کو بھوکی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا تھا نوجوان ترک جو مغربی ممالک سے تعلیم حاصل کرکے آئے اپنے ساتھ وہاں کی ثقافت بھی لے آئے۔ مغربی ثقافت سے متاثر ان نوجوان ترکوں نے مصطفی کمال کی قیادت میں ایک خفیہ انجمن1906ء میں بنائی‘27 اپریل 1909ء میں سلطان عبد الحمید ثانی کو معزول کرکے ان کی جگہ ان کے بھائی محمد ارشاد کو سلطان محمد پنجم کے نام سے مسند حکومت پر بٹھادیا گیا اس کے ٹھیک دو ماہ بعد جون1909ء کو تھامس ایڈورڈ لارنس(لارنس آف عریبہ) اپنے خفیہ مشن پر مشرق وسطی کے لئے روانہ ہوا۔ جمال الدین افغانی کے انتقال سے اسلامی اتحاد کی تحریک کو ضعف پہنچا عربی اورعجمی اتحاد میں رخنہ ڈالنے کے لئے لارنس آف عربیہ نے بھرپور کام کیا اس کی محنت رنگ لائی اور شریف مکہ اور ان کے حامیوں نے اسلامی اتحاد سے علیحدہ راستہ اختیار کیا۔ وثائق یہودیت کے 1905ء میں منظرعام پر آنے کے ٹھیک سترہ سال بعد یکم نومبر1922ء کو مصطفی کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کی خلافت کے خاتمے اورجمہوریت کے قیام کا اعلان کیا۔ اہل مغرب کی یہ وہی جمہوریت ہے جس کو اسلام کے مقابلے پر متعارف کرایا گیا تھا اس طرح دو سال بعد1924ء میں سلطنت عثمانیہ کا باضابطہ خاتمہ کردیا گیا۔ لارنس آف عریبیہ نے اپنے حصے کا کام بھرپور طریقے سے نبھایا یہ اسی کی محنت کا ثمر ہے کہ آج چھیانوے سال بعد امت مسلمہ باون مختلف ممالک میں تقسیم ہوئی۔ ہزاروں لاکھوں کتابوں کی موجودگی میں محض144 صفحات کی وثائق یہودیت کو میں نے کیوں اہمیت دی؟ یہ کوئی الہامی کتاب تو نہیں ہے نہ ہی کوئی پیش گوئی کرنے والی کتاب ‘ وثائق یہودیت خفیہ ہی رہتی اگر اس کو روسی قدامت پسند چرچ کے پادری پروفیسر سرگ پی اے نیلس اس کو روسی زبان میں ترجمہ کرکے 1905ء میں شائع کرکے پہلی بار دنیا کے سامنے نہ لاتے اس کتاب کو راقم نے اس لئے اہمیت دی ہے کہ اس میں صیہونیوں(یہودیوں) کے مستقبل میں دنیا پر قبضہ کرنے کے منصوبے موجود ہیں یہ ایک خیالی یا تصوراتی کتاب کہلاتی اگر ہم اس میں موجود منصوبوں پر آج تک من و عن عمل ہوتا نہ دیکھتے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی پیش گوئی کرنے والی سو فیصد درست کتاب ہے جس کے حرف بہ حرف پر ہرگز رتا لمحہ مہر تصدیق ثبت کررہاہو‘ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ حیات نہیں جس کا اس میں بھرپورتذکرہ نہ کیاگیاہو۔ یوں لگتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے کوئی نادیدہ قوت اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو پڑھ کر روبوٹ کی طرح عمل کررہی ہو۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ خود زار روس کی حکومت بھی وثائق یہودیت کا شکار ہوئی زار کی حکومت کا 1917ء میں کرنسکی حکومت نے تختہ الٹ دیا کرنسکی کی یہود نواز حکومت نے آتے ہی وثائق یہودیت کی تمام کتب بازار سے اٹھواکر ضائع کرادیں تاکہ زار روس کی حکومت کے خلاف سازش سامنے نہ آجائے۔ پروفیسر نیلس کو اس نے گرفتار کرایا اور بالشویکوں نے جیل میں ان پر بری طرح تشدد بھی کیا پھر انہیں ملک بدرکردیا گیا۔ وثائق یہودیت کے پیچھے نادیدہ یہودی(صیہونی) عام یہودیوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں یہ خود کو عام یہودیوں سے بھی پوشیدہ رکھتے ہیں آج دنیا کا سارا نظام ان کے کنٹرول میں ہے اب غور کریں1921ء میں ہنری فورڈ کے مستند دعوئوں پر کہ اس میں کس قدر حقانیت اور حقیقت نظرآتی ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ اب یہ رجحانات دو پہلوئوں پرکار فرما ہیں اولاً تمام دنیا میں غیر یہود کی حکومتوںکے حصے بخرے کرنا اور دوسرا فلسطین میں صیہونی ریاست کا قیام عالمی صیہونیت (یہودیت) جو عالمی مالیات اور حکرانوںکوکنٹرول کرتی ہے۔ ہنری فورڈ کے دعوئوں کے عین مطابق صرف تین سال بعد سلطنت عثمانیہ کاخاتمہ کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کے کئی حصے بخرے ہوجاتے ہیں اور پھر ٹھیک ستائیس سال بعد فلسطین میں14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی ریاست قائم ہوجاتی ہے سب سے زیادہ حیرانی اورنہ سمجھے والی بات یہ ہے کہ1921ء میں یہودیوں کی کوئی باضابطہ ریاست نہیں تھی اس کے باوجود اسکا کہنا کہ عالمی صیہونیت(یہودیت) عالمی مالیات اور حکمرانوںکو کنٹرول کرتی ہے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی کس قدر طاقتور اور منظم قوم ہے…(جاری ہے)