ذرا بچ کے
پاکستانی سیاست میں کچھ ایسے سیاستدان بھی موجود ہیں جو کہ ہر حکمران چاہے وہ کوئی ڈکٹیٹر ہی کیوں نہ ہو کے ساتھ ایسے فِٹ ہوتے ہیں کہ جیسے وہ اسی کا حصہ ہوں۔ یہ بات ذرا اوپر لیول کی ہے کہ جہاں حکومتیں بننے اور ٹوٹنے کی دوڑ ہوتی ہے اور ایسے موقع پر برے بھلے کی تمیز تقریباً ختم ہی ہوجاتی ہے۔ پہلے کے دشمن آپس میں گلے لگ جاتے ہیں ، لگائے گئے الزامات پہ لمبے لمبے قہقہے لگائے جاتے ہیں ، پرانی باتوں کو بھلانے کی بات کی جاتی ہے ، ملکی مفاد اصولوں پہ آڑے آ جاتا ہے ، جمہوریت بچانے کی باتیں ہونے لگتی ہیں مگر اس سارے معاملے میں بے وقوف تو عوام ہی بنتے ہیں کہ جن کے نظریات اور دلی وابستگیوں کو قتل کر کے مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیںلیکن یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ کئی بار ہمارے حکمران جو کہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہوتے ہیں، مختلف وزارا ، ایم این اے اور ایم پی اے بھی سیاسی ٹھگوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں جو کہ دوران اقتدار مذکورہ سیاسی رہنما کے ساتھ قربتیں بڑھا کر خوب مفادات اٹھاتے ہیں ، شاید ہمارے سیاستدان ان نام نہاد سیاسی افلاطونوں کی باتوں میں اس لیے آ جاتے ہونگے کہ پتہ نہیں ‘‘ ملک صاحب ‘‘ کا کتنا ووٹ بینک ہے ؟ شاید سیاستدان بالخصوص ایم این اور ایم پی اے جو کہ اقتدار میں ہوتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی برادری کے ‘‘ بڑی پگ ‘‘ والے کو رام کرنے میں ہی انکی کامیابی اور ووٹ کی ضمانت ہے۔ یہاں جن سیاسی ٹھگوں کی بات ہورہی ہے وہ خود تو سیاستدان نہیں ہوتے مگر سیاستدانوں کا استعمال خوب کرتے ہیں۔ کبھی سیاستدانوں کے ڈیروں پر کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اتنے ہزار ووٹ انکی جیب میں ہیں تو کبھی وزیروں اور مشیروں کے دفتروں میں خوشامدیں کرتے اور اپنے کام نکلوانے کے چکر میں چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ شاید کہ ہمارے سیاستدان ہمیشہ اسی شخص کو پسند کرتے ہیں جو کہ خوب خوشامد کرتا ہو ، پیسہ لگاتا ہو یا پھر اپنی وفاداری کا یقین دلاتا رہتا ہو۔ مگر ایک بات جو کہ بہت ہی کڑوا سچ ہے کہ یہی سارے پگ والے لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں ، جدھر وزن دیکھتے ہیں اْدھر ہی جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جو لوگ کسی دور میں بھٹو کے جیالے بنے رہے وہی لوگ پکے ن لیگی بن گئے ، جو لوگ مشرف دور میں مشرف کی پالیسیوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے وہی پھر سے ن لیگ کو ملک کے لیے مسیحا قرار دینے لگ گئے۔ جن لوگوں نے مسلسل دس سال پنجاب میں شہباز شریف حکومت کے گْن گائے ، موقع ملنے پر تحریک انصاف یا پھر اسکے اتحادی ایم این اے اور ایم پی اے کے ارد گرد منڈلانے لگ گئے۔ یہی نقطہ جب ایک بار اپنے علاقے کے نو منتخب ایم این اے کے ساتھ ملاقات میں ہم نے اٹھایا تو جواب میں ‘‘ صاحب ‘‘ نے کہا کہ نہیں نہیں ہم تو بالکل سلیکٹڈ لوگوں کو ہی ساتھ ملا رہے ہیں جو کہ قابل بھروسہ ہیں مگر یہ بات شاید اقتدار میں آنے کے بعد بھول جاتی ہے کہ جو لوگ ن لیگ کے ساتھ تیس تیس سالہ رفاقت قربان کر رہے ہیں تو اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں ؟ایم این اے اور ایم پی اے کو یہ سوچنا چاہئیے کہ آخر کیا وجہ ہے انہیں ہمیشہ علاقے کے کسی ملک ، کسی بزنس مین یا پھر کسی سیٹھ کی محبت ہی کیوں اسکے حلقے میں کھینچ لاتی ہے ؟ کیا اتنا ہی وقت حلقے کے کسی متوسط یا پھر غریب شخص کے بیٹے بیٹی کی شادی یا پھر فوتگی پہ افسوس کے لیے نکال پاتے ہیں ؟ کیا کوئی غریب یا غیر مقبول شخص انکے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کرے ( جو کہ ناممکن ہے کیونکہ غریب کبھی بھی بڑے لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر نہیں چل سکتا ) تو اسے بھی وہی اہمیت حاصل ہوتی ہے جو کہ حلقے کے کسی تاجر کو حاصل ہوتی ہے ؟ کیا کسی عام شخص کی فون کال بھی اسی طرح اٹینڈ کی جاتی ہے جس طرح کسی صاحب حیثیت کی کال پر کال بیک کی جاتی ہے ؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب نہیں میں ہے تو پھر ہمارے سیاستدانوں کو تھوڑا سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ جن لوگوں کی محفلوں میں وہ جا کر تصاویر بنوا رہے ہیں انکے مسائل بھی بڑے بڑے ہونگے۔ کسی کو کو کوئی ٹھیکہ درکار ہوگا تو کسی کو سرکاری زمین لیز پر چاہئیے ہوگی ، کسی کا کام کہیں پھنسا ہوا ہو گا تو کسی کے بیٹے بیٹی کو کوئی پوزیشن والی نوکری درکار ہوگی۔نہ جانے ہمارے ‘‘ بڑے ‘‘ لوگ خوشامد اور چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں یا پھر انہیں اپنے حلقے کے صرف بڑے بڑے لوگ ہی نظر آتے ہیں جن کی محافل میں شامل ہو کر ہمارے وزارا چار چاند لگاتے ہیں جبکہ ضرورت مندوں کے لیے انکا میسر ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہاں مسئلہ صرف ایک ہی ہے کہ عام ووٹر کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی ‘‘ بڑوں ‘‘ تک پہنچ ہے اس لیے انکے لیے کیا ن لیگ کی حکومت اور کیا پی ٹی آئی کی حکومت ، انکے لیے کیا صوبائی وزیر اور کیا وزراعلیٰ کا مشیر سب ایک جیسے ہیں کیونکہ یہ لوگ تو انہیں ملنے سے رہے۔ جب کوئی عام آدمی اپنے حلقے کے منتخب عوامی نمائندے سے رابطے کی کوشش کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صاحب تو اسلام آباد یا لاہور میں ہیں اور اگر غلطی سے کوئی بندہ لاہور یا اسلام آباد سے رابطہ کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صاحب پیچھے حلقے میں گئے ہوئے ہیں۔ بس ہمارے وزارا اور منتخب نمائندوں کو خوشامدی اور مطلب پرست ورکروں اور چیلے چمچوں سے بچ کے چلنا پڑے گا وگرنہ انہیں اپنے حلقے کے اصل مسائل اور اصل ووٹر نظر نہیں آئیں گے ، جس کا نتیجہ اگلے الیکشن میں مذکورہ سیاستدان کو ہار کی شکل میں بھگتنا پڑے گا جبکہ چیلے چمچے تو دوسری جماعت کے نمائندوں کو ہار پہنانے کے لیے تیار کھڑے ہونگے۔