پہلے نہ اٹھاسی ٹی وی چینلز ہوا کرتے تھے نہ وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے نہ سیاستدانوںاور بیوروکریسی میں اندھی کرپشن کا رواج تھا اور نہ احتساب ادارے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ کرپشن نے 1988 کے بعد منہ کھولنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اوپر سے نیچے تک اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آمرجنرل پرویز مشرف نے عوام کو احتساب کے نعرے سے بے وقوف بنایا اور خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے نیب کو بطور ثبوت وجود میں لانا پڑا۔ ایک ایسا ادارہ جس نے مخصوص افراد کو عبرت کا نشانہ بنانے کی تاریخ رقم کی ہے جبکہ آمراور اس کے سیاسی ٹولے کو استثنیٰ حاصل رہا۔ مشرف ٹولے میں کسی کا بھی احتساب کبھی نہیں ہوگا البتہ ضیا کی پیداوار چونکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی لہٰذا ان کے قدم زمین سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ بلا شبہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ادوار کرپشن کے بادشاہ مانے جاتے ہیں مگر نیب کے دربار میں امتیازی سلوک آخر کس کے حکم پر روا رکھا جا رہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ کی گرفت کب ہو گی؟ بیوروکریسی اور آمر کا احتساب کون کرے گا؟ پی پی کی حکومت میں ن چور ، ن کی حکومت میں پی پی چور، پی ٹی آئی کی حکومت میں دونوں چور اور اسٹیبلشمنٹ کے حضور سارے چور۔ اس حقیقت کی سمجھ تحریک انصاف کی حکومت کو خاتمہ اقتدار پر آئے گی۔ ابھی تو میڈیا کو ’’سب کمال ہے‘‘ کے پروپیگنڈہ کی نصیحت فرمائی گئی ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں نے تبدیلی کے نام پر تحریک انصاف کے سائے تلے اقتدار کے ایوانوں میں ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ خالق جماعت مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کے دوران اپنے منشور میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کو سرفہرست رکھا تاکہ دو قومی نظریہ کی تکمیل ہو سکے اور ہندوئوں کے ظلم و ستم کا شکار غریب مسلمان جو جنگ آزادی 1857 ء کی ناکامی کے بعد مسلسل زیر عتاب رہا ہے اس کو آزادی نصیب ہو سکے۔ یہ خطہ ارضی پاکستان خالصتاً لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا مگر بدقسمتی سے اپنے قیام سے ہی سیاسی کشمکش کا شکار رہا ہے۔ قائد ملت جناح کے دو قومی نظریہ کو مٹانے کے لئے نئی نسلوں کے ذہن سے اسلامی اقدار کو ختم کرنے کی سازشیں ہنوز جاری و ساری ہیں لیکن تحریک پاکستان کے چالیس لاکھ شہدا کی دی گئی قربانیوں کو یہ قوم فراموش کرنے سے گریزاں ہے۔ نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کی مفاد پرستانہ پالیسیوں کی بدولت ہر طرف افراتفری رہی ہے جس کی وجہ سے ملک کا وجود خطرے سے دو چار ہوا اور یہ مقدس وطن سقوط ڈھاکہ کی شکل میں دولخت ہوا۔آمریت کے نقصانات کا ازالہ آج تک نہ ہو سکا جس کی وجہ سے پاکستان میں ایک پائیدار سیاسی نظام مضبوط نہ ہو سکا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں اقتدار کی ہوس میں مبتلا نااہل و کرپٹ حکمرانوں نے موروثیت کی بنیاد رکھتے ہوئے ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ 1970ء میں ریٹائرڈ ائرمارشل اصغر خان نے تحریک استقلال کے نام سے ایک نئی سیکولر پارٹی کی بنیاد رکھی جس میں اس وقت کے بڑے بڑے قد کاٹھ والے سیاسی نمائندوں نے جوق درجوق شرکت کی اور اس کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے جس سے عوام کے اندر ائرمارشل اصغر خان ایک نجات دہندہ کے طور پر سمجھے جانے لگے اور تحریک استقلال کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والوں کو کامیاب سمجھا جانے لگا۔ 1979 کے ضیاء الحق دور کے انتخابات میں تحریک ا ستقلال اس پوزیشن میں تھی کہ وہ حکمران جماعت کے طور پر کامیاب ہو سکتی تھی مگر ایسا نہ ہوا کیونکہ ا صغر خان کے زیر سایہ اقتدار کے خواہشمند سیاسی شعبدہ بازوں نے وہ کام دکھائے کہ اصغر خان ماضی کا گمشدہ باب بن کر رہ گئے اور یہ سیاستدان عوام کو اپنے وعدوں پر ٹرخانے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک استقلال کے بانی صدر اصغرخان کی سایہ دار چھتری میں ہی چھید کر کے پارٹی کو موسم کی سختیوں کے سپرد کر دیا اور خود اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی۔ تحریک استقلال پھر بھی مستقل مزاج رہی بلکہ 1983ء کی تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) میں حصہ لیا اور اسی پاداش میں اصغر خان گرفتار بھی ہوئے‘ اصغر خان کے جھنڈے کے سایہ تلے رہنے والوں نے آمریت کی آغوش میں جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور یوں تحریک استقلال کے ان غیر مستقل مزاج فصلی بٹیروں نے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور پارٹی کو اپنا وجود خطرے میں محسوس ہونے لگا۔ لیکن موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کو تحریک استقلال کے انجام سے بچا لیا اور بھرپور معاونت سے حکمرانی کا چانس دلوا دیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے مایوسی اس کا اہم سبب ہے۔ ان دونوں نے ملک کی کو برے طریقے سے ہلایا ہے کہ وطن عزیز کا ہر فرد یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اب کوئی نجات دہندہ سیاسی لیڈر انہیں اس سیاسی و معاشی گرداب سے نکال سکتا ہے۔ عمران خان کو بطور نجات دہندہ قبول کرنا پڑا۔ کھیل کے میدان کے کپتان عمران خان نے سیاست کے میدان میں اترنے کے بعد عوام کو تبدیلی کی طرف مائل ہونے پر مجبور کیا۔ مجبور و بے بس عوام نے تحفہ خداوندی سمجھتے ہوئے عمران خان کی قائدانہ پکار پر لبیک کہا۔ خصوصاً نوجوان طبقہ نے بھرپور انداز میں کپتان کی ٹیم کا حصہ بننے کا یقین دلایا۔ کرپشن کے خلاف بلند آواز میں عوام نے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ عمران خان کی بنائی ہوئی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف نے بنیادی سطح پرپڑھے لکھے قابل نوجوانوں کو پارٹی کی باگ ڈور دینے کا اعلان کیا مگر پی ٹی آئی پر بھی انہیں جاگیرداروں‘ نوابواں اور مفاد پرست سیاستدانوں نے غلبہ حاصل کر لیا۔ دوسری سیاسی پارٹیوں سے دھتکارے ہوئے افراد جوق در جوق پی ٹی آئی میں شمولیت کر کے آج حکومت میں وزیر و مشیر بنے بیٹھے ہیں۔ اورعمران خان نے اپنی ہی کہی ہوئی بات سچ ثابت کر دکھائی اب میں فرشتے کہاں سے لائوں۔
کپتان نے سیاست کو بھی کھیل سمجھ کر میچ فکسنگ میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اصغر خان بحیثیت ائرمارشل اپنے فیصلوں کو حرف آخر کہتے رہے ہیں بالکل اسی طرح عمران خان بھی اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ وہ تو ملک کے بڑوں کا بھلا ہو جنہوں نے عمران خان کو اصغر خان اور تحریک انصاف کو تحریک استقلال بننے سے بچا لیا۔ البتہ تحریک انصاف میں پرانے پاپی حکومت گھسیٹنے سے معذور دکھائی دے رہے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024