مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام‘ پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ‘ بھارت اسرائیل نظرانداز
امریکہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔ امریکہ نے انہی الزامات کے تحت پچھلے سال پاکستان کو واچ لسٹ میں رکھا تھا‘ اب اسے بلیک لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بین الاقوامی ایکٹ برائے مذہبی آزادی 1998ء کے تحت پاکستان سمیت سعودی عرب، چین، ایران، شمالی کوریا، برما، اریٹیریا، سوڈان، تاجکستان اور ترکمانستان کو بلیک لسٹ میں شامل کیاہے۔ امریکا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں سے روا سلوک پر پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی مذہبی آزادی کا تحفظ ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیح ہے، امریکا مذہبی آزادی سے متعلق ہر سال فہرست جاری کرتا ہے اور پاکستان اس فہرست میں برقرار رہا تو اس پر ممکنہ طور پر جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکہ ایسی زیادتیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اب بھی لوگوں کو ہراسگی اور گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کئے جانے کے بعد اب واشنگٹن، مذہبی آزادی کے نام پر پاکستان پر اصلاحات کیلئے دبائو ڈال سکے گا۔ بلیک لسٹ میں شامل ملکوں پر الزام ہے کہ یہ باقاعدہ منظم طریقے سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
اقلتیوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال تمام دنیا میں مثالی نہیں تو اطمینان بخش ضرور ہونی چاہیے۔ مگر خود امریکہ میں بھی اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ سے وسیع پیمانے پر بلاتحقیق مسلمانوں کو جلاوطن کردیا گیا۔ چند سال قبل امریکہ میں کچھ ملعون پادریوں نے قرآن پاک کو نعوذباللہ نذرِآتش کرکے دہشت گردی کا ارتکاب اور مسلمانوں کی دلآزاری کی۔ اسے نام نہاد مہذب دنیا نے آزادی اظہار کا نام دے دیا۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی پامالی ہو اس پر ہر ذی شعور کو تشویش ہوتی ہے‘ اسکے سدباب کیلئے ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے۔ انسانی اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے اسکی تنظیمیں موجود ہیں جو عالمی سطح پر صورتحال کا جائزہ لیتی اور ممکنہ اقدامات کرتی ہیں۔ امریکہ کو کیا اقوام متحدہ نے مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی پر بلیک لسٹ جاری کرنے کا اختیار دیا ہے اور پھر امریکہ کے پاس کسی ملک میں مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کو جانچنے کا کیا معیار ہے۔ پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ سراسر لغو اور الزام برائے الزام ہے جو ڈومور کے تقاضوں پر پاکستان کو آمادہ کرنے کا ایک حربہ نظر آتا ہے۔ دنیا میں کہیں مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو امریکہ خود عالمی تھانیدار بننے کے بجائے اقوام متحدہ کے ہاتھ مضبوط کرے جو مکمل تحقیقات بعد خلاف ورزی کے مرتکب ممالک کیخلاف کارروائی کا مجاز ہے۔
پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ کے بیان پر بجا اور بروقت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش اور اصل صورتحال وضاحت سے بیان کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکہ کی جانب سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے مرتکب ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے سیاسی بنیادوں پر کیا گیا فیصلہ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو اپنی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی ملک کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے امریکی فیصلوں سے ’واضح امتیاز ظاہر ہونے کے علاوہ اس ناجائز عمل میں شامل خودساختہ منصفین کی شفافیت اور قابلیت پر بھی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھتے ہیں۔
پاکستان ایک کثیرالمذہبی ملک جہاں مختلف عقائد اور فرقوں کے حامل لوگ رہتے ہیں۔ ملک کی کل آبادی کا چار فیصد حصہ مسیحی، ہندو، بودھ اور سکھ عقائد سے تعلق رکھنے والوں کا ہے۔ پاکستانی حکومتوں نے اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو ملک کے قانون اور آئین کے وضع کردہ حقوق کے مطابق تحفظ فراہم کرنے کو ہمیشہ فوقیت دی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کیلئے کئی اہم فیصلے دئیے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو پارلیمان میں خاطرخواہ نمائندگی دی گئی ہے اور ان پر جنرل نشستوں پر انتخاب لڑنے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔
امریکی سفیر برائے مذہبی آزادی سیم براؤن بیک کا بیان حوصلہ افزاء ہونے کے ساتھ انکے زمینی حقائق سے بے خبر ہونے کا بھی غماز ہے۔ انہوں نے ملک کے نئے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک نئی راہ پر جانے کی امید کا اظہار کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا پاکستان کا ریکارڈ مایوس کن رہا ہے۔ایک تقریب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’توہین مذہب کے الزام میں نصف درجن سے زائد افراد پاکستانی جیلوں میں ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ حکومت اکثر مذہبی اقلیتوں کے قتل اور ان کیخلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی ہے۔‘‘
نصف درجن سے زائد کا مطلب سات آٹھ افراد جیل میں ہوسکتے ہیں۔ توہین مذاہب کیخلاف آئین کے مطابق بلاامتیاز کارروائی ہوتی ہے‘ ان چھ سات میں ہو سکتا ہے۔ چار پانچ مسلمان ہی توہین مذہب کے الزام میں زیرحراست ہوں۔ آسیہ بی بی کی رہائی کیخلاف احتجاج کرنیوالوں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کرکے سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کیا یہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ریاستی عزم کا اظہار نہیں ہے؟ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تمام تنظیموں کی انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹس میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی بھارتی فورسز کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں ہورہی ہے۔ اسرائیل بھی ایسے مذموم اقدامات میں بھارت سے کم نہیں ہے مگر مذکورہ امریکی لسٹ میں بھارت اور اسرائیل کا سرے سے نام ہی نہیں جو امریکہ کے پاکستان کیلئے بغض کا عکاس ہے۔
حقوقِ انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے چند ماہ قبل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق جہاں بھارت میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے اقلیتوں کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے وہیں ہندو قوم پرست گروپوں کی جانب سے انھیں ہراساں بھی کیا جاتا رہا اور کچھ واقعات میں نوبت اقلیتوں پر حملوں تک بھی جا پہنچی۔مسلمانوں‘ سکھوں اور عیسائیوں کو ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سکھوں سے اندراگاندھی کے قتل کا انتقام اب تک لیا جارہا ہے۔ 1984ء میں جو کچھ ان کے ساتھ ہوا‘ ان کیلئے ہالوکاسٹ تھا جبکہ پاکستان کی طرف سے کرتارپور بارڈر کھولنا اس کمیونٹی کے مذہبی حقوق کے تحفظ کی عمدہ مثال ہے۔ بھارت میںمسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔ ان کو مذہبی فرائض کی ادائیگی سے جبری روکا جاتا ہے۔ مساجد اور چرچ بھی نذر آتش کئے گئے۔ تنظیم کے مطابق جب بھارت میں چار مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کے شبہ میں موت کے گھاٹ اتارا گیاتو اس کے خلاف مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آواز اٹھائی لیکن بی جے پی کے کچھ رہنماؤں نے اس پر مشتعل ہو کر جو بیان دیے اس سے آواز اٹھانے والے افراد کو بھی دھمکی آمیز پیغامات ملنے لگے۔یہاں خود امریکی تھنک ٹینک اور عالمی تحقیقاتی مرکز پیو کی جانب سے دو تین ماہ قبل جاری ہوشربا سروے رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں معاشرتی اور مذہبی اعتبار سے تعصب پھیلانے والے ممالک میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ بھارت میں مذہبی آزادی کا فقدان ہے۔واشنگٹن میں واقع اس تھنک ٹینک کو ساری دنیا میں معتبر مانا جاتا ہے۔
امریکہ غیرجانبداری سے جائزہ لے تو اس پر حقیقت واضح ہو سکتی ہے کہ مذہبی آزادیوں کیخلاف کون ملک کس حد تک جارہا ہے۔ پومپیو تعصب کی عینک اتار کر مذہبی آزادیوں کے حوالے سے پاکستان کا کسی بھی ملک کے ساتھ موازنہ کریں تو پاکستان میں صورتحال اطمینان بخش نظر آئیگی۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کو پاکستان کے دوٹوک موقف سے آگاہ کیا جس پر امریکہ نے پہلے تو اس کا برا منایا تاہم ٹرمپ نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا۔ اس سے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی ختم اور بہتری کی فضا استوار ہو رہی تھی مگر پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے اقدام سے ممکنہ مفاہمت کی فضا مکدر ہو سکتی ہے۔ امریکہ شاید وزیراعظم عمران خان کے مبنی برحقیقت موقف سے ناراض ہوا ہے مگر سچ یہی ہے جو وزیراعظم نے کہا ہے۔ امریکہ اقلیتوں اور انسانی حقوق کا علمبردار جانبداری اور تعصب سے بالاتر ہو کر ہی بن سکتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024