لاہور میں ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال اور احتجاجی مظاہرہ
لاہور میں ایک مرتبہ پھر ڈاکٹروں کی ہڑتال کی پریکٹس شروع ہو گئی ہے۔ اس سے قبل وکلاء کی طرف سے عدالتوں کی تالا بندی اور سائلین کو خوار کرنے مارنے پیٹنے کی ریہرسل بھی کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ یوں اب کالے اور سفید کوٹوں والوں کا یہ مشترکہ پروگرام نجانے کتنے دن چلتا ہے۔ اس کا کوئی نتیجہ نکلے نہ نکلے، عوام کو البتہ بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ احتجاجی مظاہرین معروف شاہراہوں پر جلوس نکال کر دھرنا دے کر راستے بند کر دیتے ہیں۔ یوں آناً فاناً پورے شہر کی ٹریفک سست روی اور بندش کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اس وقت تو یک نہ شد دو شد والی حالت ہے۔ پرانے زمانے سے ہی لوگ دو مقامات سے محفوظ رہنے کی دعائیں کرتے تھے۔ ان میں ایک کچہری تھی ا ور دوسرا ہسپتال کہ خدایا ان دونوں سے بچایا جائے۔ آجکل بھی یہی دعا لبوں سے نکل رہی ہے۔ ڈاکٹر ہوں یا وکیل یہ عوام کو ریلیف دینے ان کی زندگی بچانے کی بجائے قصاب بن کر ان کی جیب اور زندگیوں کو کاٹنے کی لت میں مبتلا ہو چکے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اب وقت بدل چکا ہے۔ نئی حکومت ان کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہو گی۔ یہ ہڑتال احتجاج اور دھرنے کام توڑ کرنا بخوبی جانتی ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ ینگ ڈاکٹرز خود ہی یہ سب کھیل تماشے بند کر کے کام پر آ جائیں ، مریضوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں ۔ کہیں حکومت ہڑتال پر پابندی نہ لگا دے۔ عوام بھی تنگ آنے کی وجہ سے حکومت کا ہی ساتھ دیں گے…
٭٭٭٭٭٭
چمن میںپشتون قبائل کی پاکستان زندہ باد ریلی
بعض شرپسند عناصر کی کوشش تھی کہ وہ منظور پشتین نامی گمراہ شخص کی بلوچستان آمد پر صوبہ بدری کے احکامات کے تحت اسے واپس ائیر پورٹ سے ہی کراچی بھیجنے کے واقعہ کے خلاف لسانی جذبات بھڑکائیں۔ مگر افسوس بلوچستان کے افغان سرحدی علاقے میں آباد پشتون قبائل نے بے مثال وطن دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے شرپسند عناصر کی مکمل حوصلہ شکنی کی۔ گزشتہ روز چمن میں ان محب وطن قبائل نے پاکستان زندہ باد ریلی نکالی اور پاکستان سے اپنی لازوال محبت کا ثبوت دیا۔ حیرت کی بات ہے کل تک جو شخص ایک سائیکل خریدنے کا بھی روا دار نہ تھا آج وہ اعلیٰ قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے۔ جس کا اپنا ذریعہ روزگار کچھ نہیں۔ وہ راتوں رات کیسے اتنا سرمایہ دار بن گیا کہ اپنے علاوہ درجنوں دوسرے اپنے حامیوں موالیوں کا بھی خرچہ اٹھا رہا ہے۔ مختلف شہروں میں جا کر وہاں موجود پٹھانوں کو قومیت زبان اور نسل کے نام پر بھڑکا رہا ہے۔ ریاست کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ اگر اسے پاکستان سے اتنی ہی چڑ ہے اور وہ فخریہ خود کو افغان کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ افغانستان جا کر اپنا ڈھول پیٹے۔ یہاں یہ ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان میں تو سب پشتون مکمل آزاد پاکستانی شہری ہیں۔ منظور پشتین کو افغانستان میں کوئی منہ نہیں لگاتا۔ صرف ’’را‘‘ والے بطور چارہ اسے چند ٹکے ضرور دیتے ہیں۔ یہ ان کے بل بوتے پر پاکستان کے خلاف مکروہ کارروائیاں کر کے ان کی نمک حلالی کرتا پھرتا ہے…
بیلجئم نے شکست دے کر پاکستان کوورلڈ کپ سے باہر کر دیا
تین میچ ہارنے اور ایک میچ برابر کر کے ہماری ہاکی ٹیم جو ہمارے آفیشلز کے مطابق بھارت میں پاکستانی ہاکی کے جھنڈے گاڑنے اور ورلڈ کپ میں بہترین کھیل پیش کرنے کے بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ بھونیشور گئی تھی کا ورلڈ کپ میں سفر تمام ہوا۔ اب اس کے بعد کوئی کارکردگی کی بات کر کے خود کو یا ٹیم کو شرمندہ کیا کرے۔ ہمارے ہاں تو بقول غالب
؎’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘
والی حالت طاری ہے۔ ہاکی کبھی پاکستان کا سرمایہ افتخار تھا اب عرصہ دراز سے یہ کھیل ملک پر ایک بوجھ بن گیا ہے۔ سالانہ کروڑوں کی گرانٹ کے باوجود عالمی سطح کی قومی ٹیم کی کارکردگی صفر جمع صفر مساوی صفر ہے۔ ہاکی کا زوال تو عرصہ پہلے شروع ہو چکا تھا۔ مگر پی ایچ ایف کے بڑے بڑے نامی گرامی کرتا دھرتا ہر بار ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے ، کھلاڑیوں پر بہت محنت کر رہے ہیں جیسے اعلانات کرتے پھرتے تھے۔ اس کے باوجود ہم سے پے درپے سارے عالمی اعزازات چھن گئے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ جن ممالک کی ٹیمیں 3 میں ہیں نہ 13 میں وہ بھی ہمیں آسانی کے ساتھ یوں ہرا دیتی ہیں کہ ہمیں خود بھی یقین نہیں آتا کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کاتعلق خود کھیلوں کی دنیا سے رہا ہے۔ وہ کھیلوں کی زبوں حالی سے بخوبی آشنا ہوں گے۔ اگر وہ ذاتی توجہ دیں تو ہاکی کی بحالی کے لئے بہت کچھ ہو سکتا ہے ورنہ یہ مردہ اس وقت وینٹی لیٹر پر پڑا نظر آ رہا ہے…
٭٭٭٭٭٭
قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کی مخالفت کے باعث شراب پر پابندی کا بل پیش نہ ہو سکا
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ایم این اے رمیش کمار نے جن کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ ایک عدد بل پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ بل کے مطابق ہندو مذہب میں بھی شراب پر پابندی ہے اس لئے قومی اسمبلی بھی اس بارے میں قانون سازی کرے۔ بس بل کا پیش ہونا تھا کہ حکومتی بنچوں اور اپوزیشن بنچوں میں ہا ہا کار مچ گئی۔ ایک لمحے میں اسمبلی بذات خود میخانے میں بدل گئی۔ ہر طرف ہائو ہو کا شور مچ گیا اور رمیش کمار کے لئے محاورے کے مطابق اپنی پگڑی بچانا مشکل ہو گیا۔ اب وہ بے چارے ہکا بکا بکا کبھی اپنوں کی طرف اور کبھی غیروں کی طرف دیکھنے لگے۔ یوں یہ بل منظور نہ ہو سکا۔ وزیراطلاعات فواد چودھری نے بھی بعدازاں اس بل کو سستی شہرت حاصل کرنے کا ذریعہ کہہ کر رمیش کمار جی کی ’’شبھ کا منائوں‘‘ کا مذاق اڑایا۔ سب جانتے ہیں کہ اقلیتی کوٹے کے نام پر بکنے والی شراب کون استعمال کرتے ہیں۔ کہاں جاتی ہے۔ جن کے نام پر یہ بکتی ہے وہ تو اس کی ایک بوتل کی قیمت بھی ادا نہیں کر سکتے۔ آج بھی یہاں تو …؎
پہلے تو آکے شیخ نے دیکھا اِدھر اُدھر
پھر سرجھکا کے داخل میخانہ ہو گئے
والی حالت نظر آتی ہے ۔ ویسے بھی دیکھا گیاہے کہ دھرم مذہب ذات پات پرایک دوسرے کے خلاف بولنے اور لڑنے والے لوگ میخانے میں یکجا بیٹھ کر آرام سے شغل فرما رہے ہوتے ہیں…
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024