اکنامک سروے آف پاکستان (2017-18) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ،74 ہزار تک ہے۔ اس میں آزاد کشمیر، فاٹا اور گلگت بلستان کی آبادی شامل نہیں ہے۔ اگر ان حصوں کی آبادی اور غیر قانونی تارکین کو بھی شامل کر لیا جائے اور حالیہ مردم شماری پر ایم کیو ایم کے اعتراضات کو تسلیم کر لیا جائے تو پاکستان کی آبادی کا اصل حجم 22 کروڑ سے تجاوز کر جاتا ہے۔ ہماری آبادی اس وقت 2.4 فیصد کی شرح افزائش سے بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا گنجان آباد ملک بن چکا ہے۔ جس کی شرح ابھی بھی ترقی یافتہ ممالک جہاں اوسط شرح افزائش آبادی 0.9 فیصد ہے اور ترقی پذیر ممالک جہاں اوسط شرح افزائش آبادی 1.7 فیصد ہے۔ اُس سے کافی حد تک زیادہ ہے۔
1951-61ء تک پاکستان میں شرح افزائش آبادی 2.45 فیصد تھی۔ 1972ء سے لے کر 1981ء تک یہ شرح افزائش 3.05 فیصد تک بڑھ گئی۔ اگرچہ 2014-15 میں شرح افزائش آبادی 1.92 فیصد پر آ گئی مگر اب پھر یہ شرح 2.4 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ اگر ہم پاکستان میں خام شرح افزائش آبادی کو جانچیں تو اس کی شرح فی ہزار کے حساب سے 28.7 فیصد ہے اور 2017-18 ء میں ہماری آبادی کی زندہ رہنے کی ممکنہ عمر 65.8 سال مردوں میں ہے اور عورتوں میں 68.2 سال ہے اور اگر ہم کثافت آبادی معلوم کریں تو اس وقت اس کی شرح 261 افراد فی سکوئر کلومیٹر ہے۔
اس وقت پاکستان میں لیبر فورس کی تعداد 16کروڑ 4 لاکھ ہے اور اس وقت جو افرادی قوت کام کر رہی ہے اسکی تعداد 5.7 کروڑ ، 42 لاکھ ہے اور بیروزگاروں کی تعداد میں ہر سال 36 لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے ا ور بیروزگاری کی شرح سرکاری طور پر 5.9 فیصد ہے۔ مگر حقیقتاً اسکی شرح کئی گنا زیادہ ہے۔
مشہور ماہر معاشیات مالتھس نے آبادی کے متعلق یہ تھیسز نظریہ پیش کیا تھا کہ آبادی جیومیٹریکل تناسب سے بڑھتی ہے یعنی 8,6,4,2 وغیرہ جب کہ خوراک بڑھنے کی شرح ریاضیاتی (Arithmatical) 3,2,1 …کے تناسب سے بڑھتی ہے اور اس طرح آبادی 25 سالوں کے بعد دوگنی ہو جاتی ہے اور ا س آبادی کو مناسب سائز میں رکھنے کیلئے قدرت دنیا پر قدرتی آفات بھیجتی ہے۔
مالتھس کے اس نظریے کو مغربی سائنسدانوں نے آبادی کی شرح کو کم کر کے اور زراعت اور لائیو سٹاک میں جدید ٹیکنالوجی اور جینٹک انجینئرنگ سے غلط ثابت کر دیا۔ ان ممالک میں برائلر چکن، گندم، چاولوں، بادام، شہد اور مکئی کی پیداوار میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ یہ ممالک بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کو ایک خاص حد سے گرنے سے بچانے کیلئے ہرسال ان اشیاء کو ضائع یا دریائوں اور سمندروں میں پھینک دیتے ہیں جسے معاشیات کی اصطلاح میں dumping کہتے ہیں۔
جب پوری دنیا نے جدید زرعی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے پیداوار کو بڑھا کر اور صحت کی جدید سہولتوں کی مدد سے ہیضہ، خسرہ چیچک ، پولیو، طاعون کی وبائوں پر قابو پا لیا اور آپس میں معاہدے کر کے جنگ و جدل کو ختم کر دیا تو پوری دنیا میں مالتھس کا نظریہ متروک ہو گیا مگر پاکستان پر آفرین ہے کہ ہمارے ہاں مالتھس کا نظریہ حرف بحرف سچ ثابت ہوتاہے۔
مالتھس نے پیش گوئی کی تھی کہ آبادی 25 سال بعد دوگنی ہو گی۔ ہم نے ایسی شرح افزائش دی کہ ہماری آبادی 23 سال کے بعد دوگنی ہو جاتی ہے ا ور پوری دنیا میں اچھی طبی سہولتوں کی وجہ سے شرح اموات بے حد کم ہے مگر ہمارے ہاں یہ شرح آج بھی 6.9 فی ہزار ہے۔
تاہم آج ہمارے چیئرمین نیب نے آبادی کو کم کرنے کا نسخہ پیش کیا ہے کہ کرپشن پر پھانسی کی سزا دینے سے آبادی بہت کم رہ جائیگی۔ پاکستان 10 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت کی وجہ سے صرف نام کے زندہ ہیں۔ وہ افلاس ا ور بھوک سے مر جائینگے۔ باقی چیئرمین نیب اور عمران خان جو چین میں کرپشن پر سزائے موت کو بڑا قابل تعریف گنواتے ہیں وہ سب پھانسی پا جائینگے ا ور باقی کون بچے گا جو ایماندار ہو گا۔ مجھے نہیں سمجھ آتی ہے پاکستان کے عوامجسٹس منیر اور یحییٰ خاں کی قبر پر جا کر پھول کیوں نہیں چڑھاتے ۔
یحییٰ خاں انتہائی ایماندار شخص تھے۔ مشرقی پاکستان کوالگ کر کے انہوں نے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کتنے کروڑ کم کر دیا۔ کیا یہ احسان اس قوم پرکم ہے۔ ہمیں پہلے ہی مغربی ممالک برآمدات پر رعایت نہیں دیتے ۔ ہمیں یورپی یونین نے GPS پلس کی سہولیات اس شرط پردی ہیںکہ ہم پاکستان میں سزائے موت کا قانون ختم کر دینگے۔
آسیہ کی رہائی بھی اسکے ساتھ مشروط تھی۔ آصف زرداری کے عہد میں پاکستان نے غیر اعلانیہ طور پر سزائے موت پر پابندی عائد کئے رکھی۔
ہم جو مغربی ممالک کی امداد پر زندہ ہیں کیا ممکن ہے کہ ہم چین کی طرح دنیا کے سامنے کھڑے ہو جائیں۔ چین میں تو کمیونسٹ پارٹی کا جبر ہے وہاں وہ جسے چاہے زندہ رکھیں جسے چاہے مار ڈالیں اُنہیں کون پوچھ سکتا ہے۔ چین ہمارا دوست ہے ہم کیسے چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی ہلاکتوں پر آوازاٹھا سکتے ہیں۔ چین تو اُن مسلمانوں کی ذہنی تربیت کرتا ہے اگر وہ خود بھی مر جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔
ہم چین کی کرپشن پر سزائے موت کا قانون تو نافذ کرنا چاہتے ہیں مگر اس ماڈل کو اپنانے پررضامند نہیں ہیں کہ وہاں حکومت نے ایک ارب 37 کروڑ آبادی کی افرادی قوت کو معاشی ترقی کا محرک عام بنایا ۔
چین میں معاشی ترقی کی شرح افزائش اوسطاً 7 سے 8 فیصد سالانہ رہی جس کیوجہ سے چین نے ثابت کیا کہ زیادہ آبادی پیداواری صلاحیت کی حامل ہو تو یہ ملک کیلئے عظیم سرمایہ بن سکتی ہے۔ ا گر آج بھی پاکستان میں زراعت اور چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے ٹھوس حکمت عملیاں بنائی جائیں تو ہمارے ملک کے 10 کروڑ نوجوان اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ مگر جب ہمارے ملک کے کرتا دھرتا اور پالیسی میکرز 70 سے 80 سال کی عمروں کے ہونگے تو وہ کیوں اس ملک میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کا سوچیں گے۔
اس ملک میں چھوٹا، بڑا کاروبار کرنا بے تحاشا مشکل ہے۔ اگر اس ملک کے محنت کش طبقے پر ٹیکسوں اور ناجائز قوانین کا بوجھ نہ ہو تو اس ملک کے عوام کی اکثریت اس قابل ہے کہ وہ 20 کروڑ عوام کیلئے وسائل پیدا کر سکتی ہے اور عوام کی مارکیٹ کو اشیاء و خدمات فراہم کر کے معاشی شرح افزائش کو اس حد تک بڑھا سکتی ہے کہ جس سے ہر سال 30 لاکھ بیروزگاروں کو سیلف ایمپلائمنٹ مل سکتی ہے۔
ہاں اگر ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا ہے تو کم سن عمری کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے۔ پنجاب حکومت کا یہ احسن اقدام ہو گا۔ اگر وہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹسٹ لازمی قرار دے دے۔ ہمارے عوام کو یہ تعلیم دینا ہو گی کہ محض اولاد نرینہ کی خاطر فیملی سائز کو اپنے مالی وسائل سے نہ بڑھائیں تاہم جو افراد زیادہ اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت سے آراستہ کر سکتے ہیں اور وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو ہنرمند ہوں تو اس سے ملک کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کے ایک کروڑ افراد جو دوسرے ملکوں میں کام کر کے ہر سال 20 ارب ڈالرز کی ترسیلات پاکستان بھجواتے ہیں، کیا یہ افرادی قوت کی برآمدات سے پاکستان فوائد حاصل نہیں کر رہا ہے۔
پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مؤثر آبادی کی شرح 30 فیصد ہے جو اس ملک کی زرعی، صنعتی اور سروسز کی پیدوار میں اضافہ کرتے ہیں جبکہ 70 فیصد لوگ ان پر انحصار کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بڑ ے بڑے اداروں میں کام کرنیوالے ہزاروں بابو اور حکمرانوں کی اکثریت کی کیا پروڈکٹویٹی ہے، جس کی وجہ سے وہ اس ملک کے کسانوں، صنعتکاروں، تاجروں اور نجی شعبے میں ترقی کرنے والوں کو ذلیل کر رہے ہیں۔ جن ملکوں میں آبادی زیادہ ہوتی ہے اُنہی ملکوں میں ترقی یافتہ ممالک سرمایہ کاری کرتے ہیں کیونکہ وہاں افرادی قوت سستی ہوتی ہے۔ آپ اس ملک میں عوام کے جینوئن حکمرانوں کو بااختیار کریں۔
اس ملک میں امن و امان ہو تو کیسے ممکن نہیں ہے کہ یورپی ممالک کے لوگ اس ملک میں سرمایہ کاری کر کے ہماری سستی لیبر کا فائدہ نہ اُٹھائیں۔ چین پوری دنیا میں ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں پر اپنے ملک کی افرادی قوت کو استعمال کر رہا ہے۔ سی پیک کے وہ منصوبے جو پاکستان میں بن رہے ہیں وہاں پر 75 فیصد چائنہ کی لیبر کام کر رہی ہے۔ میرے کہنے کا مقصد ہے آبادی کو بیشک اپنی حد میں رکھنا چاہئے مگر آبادی کم ہو یا زیادہ اس کا ہنرمند ہونا اہم ہوتا ہے جس سے ملک معاشی طور پر ترقی کرتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024