جناب چیف جسٹس نے بھی کالاباغ ڈیم سے متعلق کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے بلاشبہ کالاباغ ڈیم کو رد نہیں کیا البتہ اسے موخر کرتے ہوئے پہلے سے منظور شدہ ڈیموں پر تیزی سے کام جاری رکھنے کا فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ میرا مودبانہ سوال ہے کہ 2025ء کو آبی وسائل کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا اس عرصہ میں 1500 ارب روپے مالیت کا بھاشا ڈیم بنایا جا سکے گا؟ ایک اور سوال بھی ہے کہ بھارت کی مدد سے افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔
اگر ہم نے کالاباغ ڈیم کو اسی طرح موخر رکھا جبکہ افغانستان کے ساتھ آبی وسائل کے حوالے سے ہماری کوئی ٹریٹی یا معاہدہ بھی نہ ہے جس کے سہارے ہم عالمی عدالت میں اپنے آبی حقوق کی حفاظت کر سکیں۔ ہمارا سندھ طاس کمیشن بھی صرف حکم کا محتاج ہے۔
اس اہم مسئلہ کی طرف اس نے آج تک کوئی توجہ نہ دی۔ ہمارے اداروں کی اسی کاہلی اور عدم توجہی کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑی ہے جو بگلیہار اور کشن گنگاکے کیسز میں بھی مل چکی ہے۔ مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ شاید پاکستان کی واٹر پالیسی نئی دلی میں بنتی ہے۔ اور آبی وسائل کے حوالے سے وہ کام کیا جاتا ہے جس کا اشارہ نئی دلی سے ملتا ہے۔
بھارت نہیں چاہتا کہ کالاباغ ڈیم بنے اور ہمارے اداروں نے کالاباغ ڈیم کو حرف ممنوعہ بنایا ہوا ہے۔ پاکستان کے آبی وسائل کو ناکام بنانے کیلئے ایک اور کھیل مشترکہ مفادات کونسل میں بھی کھیلا جا رہا ہے۔ 1991ء میں صوبوں کے مابین معاہدہ میں کالاباغ ڈیم کی منظوری ہوئی۔
آخری موقع پر صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ میر افضل کے کہنے پر براہ راست کالاباغ ڈیم کا نام لینے کے بجائے پیرا 6 میں پاکستان کے دریاؤں پر تمام ممکنہ ڈیموں کی تعمیر کی منظوری دے دی گئی۔ اس موقع پر مستقبل میں بننے والے ڈیموں کی تعمیر سے حاصل ہونے والے پانی کیلئے منظوری بھی دی گئی جس کے تحت صوبہ پنجاب و سندھ میں سے ہر ایک کو 37%، صوبہ سرحد (خیبر پی کے) 14% اور بلوچستان کیلئے 12% پانی دیا گیا۔ اس موقع پر کالاباغ ڈیم سے حاصل ہونے والے پانی کا تخمینہ 11.62 MAF لگایا گیا۔
اسی موقع پر پنجاب نے قربانی دیتے ہوئے اپنے حصہ میں آنے والا پانی دوسرے صوبوں (چھوٹے بھائیوں) کو دے دیا۔ اس طرح صوبہ سندھ کو مذکورہ پانی میں سے 5.72، سرحد کو 2.69، بلوچستان کو 1.76 ملین ایکڑ فٹ پانی ملا جبکہ پنجاب نے 1.45 ملین ایکڑ پانی پر اکتفا کر لیا۔ اسی سال بارشوں کے سیزن کے فوراً بعد اعتراض اٹھایا گیا کہ اکارڈ میں ظاہر کیا گیا پانی نہیں مل رہا تو 16ستمبر کو مشترکہ مفادات کونسل میں ہونے والے اجلاس میں واضح کیا گیا کہ اکارڈ میں ظاہر کیا گیا فاضل پانی کالاباغ ڈیم بننے کے بعد ہی دستیاب ہوگا۔ اس واضح جواب کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے کہنے پر پاکستان کے فاضل وزیر واٹر ریسورسز جناب فیصل واڈا کا اس ایشو کو مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
کیا اس سے واضح نہیں ہو رہا کہ مخصوص قوتیں اتنی پاور فل ہو چکی ہیں کہ وہ پانی کے استعمال کے حوالے سے اپنی سازشوں میں پاکستان کے اعلیٰ ترین اداروں کی کارروائیوں پر بھی اثر انداز ہو جاتی ہیں۔ہماری چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ آبی وسائل کا ازسرنو جائزہ لیں اور پاکستان کو ناکام ریاست بنانے والی اس معاشی دہشت گردوں کو لگام ڈالیں۔ پوری قوم آپ کا ساتھ دے گی۔ پاکستان پائندہ باد
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024