لابیLOBBY
’لوبی‘، یا،’لابی‘ کا مطلب لغت میں لکھا ہے: برساتی،پیش کمرہ،پیش دالان،برآمدہ،غلام گردش،(لابی میں مل جل کر) ممبروں پر اثر ڈالنا؛ رائے ہموار کرنا۔اس وقت ہمارے پیشِ نظر لابی کا مطلب : غلام گردش،(لابی میں مل جل کر) ممبروں پر اثر ڈالنا؛ رائے ہموار کرناہے۔
کسی بھی ملک میں ’لابیاں‘ کیا کام کرتی ہیں؟ ’’سلیس فلسفۂ سیاسیات‘‘Tractatus Politico-Philosophicusمیںمصنف:W. J. Korab-Karpowiczڈبلییو۔جے۔ کوراب کارپووچ لکھتاہے:
آج انسانی آزادی کے لیے بنیادی خطرات ہیں:۱۔ طاقت کا غَلَط استعمال۔۲۔ ذرائع ابلاغ پر اجارہ داری ۔اور اس کے ساتھ منسلک ہیں فوجی لابی ( غلام گردش)،مذہبی تعصب کی لابی ،رنڈی پن کی لابی،غیر فطری جنسی تعلقات کی لابی،اور بے تحاشا دولت کی لابی ۔
طاقت کا غَلَط استعمال(سیاسی، معاشی) اُسوقت پنپتا ہے جب افراد یا لوگوں کا کوئی گروپ طاقت اپنے ہاتھوں میں مرکوز کر لیتے ہیںاور صرف اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر اجارہ داری پبلک یا پرائیویٹ ہاتھوں میں میڈیا کا ارتکاز ہے، جس سے پُر اثر جبریہ اصول مرتب ہوتے ہیں۔
غلام گردشی گروہ سیاسی دباؤ والے گروپ ہیں جو ، ہر چند روایتی طور پر طاقت کا استعمال نہیں کرتے مگرحکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس اثر اندازی سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔
عسکری غلام گردشی گروپ معاشرے کو جنگ پر ابھارتے ہیں اور جنگ سے فوائد حاصل کرتے ہیں،دفاعی صنعت سے مال کماتے ہیں ۔یہ بات نہ ختم ہونے والی جنگوں پر منتج ہوتی ہے۔
مذہبی متشددانہ غلام گردشی گروپ تشدد کا راستہ اپناتے ہیں جس کا مظاہرہ دہشت گردی ہوتا ہے۔ان کا مقصدمعاشرے پر اپنے مطلب کی انتہا پسند مذہبی سوچ مسلط کرنا ہوتاہے تا کہ ملک میں سیاسی طاقت حاصل کی جا سکے۔یہ چیز انسانی زندگیوں ، آزادی اور استدلال کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
کسبی پن کا غلام گردشی گروپ ایک منظم مجرم نیٹ ورک ہوتا ہے جو اپنے شکار( زیادہ تر خواتین) کو کسبی پر مجبور کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک ان مجبوروں کو غلام بنا لیتا ہے اور ان کی حیثیت محض پیسہ بنانے کی مشینوں کی ہو جاتی ہے۔
غیر فطری جنسی غلام گردشی گروپ روائتی مرد عورت کی شادی کے سسٹم کو تباہ کر دیتا ہے اور خاندانی زندگیوں کو بربادکر دیتا ہے اور آخر میں یہ تمام معاشرے کو اُجاڑ دیتا ہے۔
دولت کی ریل پیل کا غلام گردشی گروپ دولت مند بننے کی تمام قدغنوں کو روند دیتا ہے اور منافع کی ہوس میں تمام سیاسی حدود کو پھلانگ جاتاہے۔یہ گروپ غیر منطقی اور بے پناہ زیادہ سرمائے اور جائدادوں کو حاصل کرتا ہے۔
تمام دنیا پر ایک نظر ڈالئیے، یہ سب لابیا ں پورے جوش و خروش سے کام کرتی نظر آئیں گی۔اس گروپ کا سب سے بڑا سُرخیل اس وقت امریکہ ہے۔امریکہ کے حلیف اور حریف سب ہی اس لابی کے شکار ہیں جن کی دیکھا دیکھی چھوٹے چھوٹے ممالک بھی جنگی ہیجان میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ افغانستان اور یمن جیسے پسماندہ ممالک بھی اس لابی کا شکار ہیں۔ ہر طرف جنگ کا سا سماں ہے۔ لیکن یہ لابی ایک بات کا ضرور خیال رکھتی ہے کہ کسی بھی ملک کو مکمل تباہی سے بچایا جائے تاکہ اس لابی کا کاروبار چلتا رہے۔
مذہبی متشددانہ لابی نت نئے روپ اختیار کرتی ہے۔ آج کل سب سے زیادہ زور دائش لابی کا ہے۔ یہ بھی دنیا کو امریکہ بہادر کی دین ہے۔ اس کے بعد چھوٹی چھوٹی لابیاں متعدد ممالک میں کام کر رہی ہیں حتیٰ کہ بھارت جیسے عدم تشدد کے فلسفے والے ملک میں بھی کئی مذہبی متشددانہ لابیاں کام کر رہی ہیں۔یہ لابیاں زیادہ تر دنیا کے اُن ممالک میں کام کر رہی ہیں جن میں مذہب کا زیادہ زور شور ہے۔
کسبی پن کی لابی انتہائی منظم لابی ہے اور اس کا گھونگٹ سب سے اعلیٰ ہے۔ یہ ہر ملک میں موجود ہے اور ہر ملک اس کا شکار ہے۔ اس کے گھونگٹ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے منتظم اور کلائنٹ دونوں ہی سامنے آنا نہیں چاہتے۔ پھر یہ کہ خود پولیس اس لابی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس گروہ میں بڑے بڑے سیاستدان خود ملوث ہوتے ہیں۔ امریکہ کی حالیہ مثال آپ کے سامنے ہے جس میں دو سینیٹروں نے جنسی ہراس کی بنا پر استعفیٰ دیے ہیں۔اس میں بھی امریکہ ٹاپ پر ہے۔ لیکن بہت سے ایسے ممالک بھی کافی فعال ہیں جن کے بارے میں عام طورپر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ بڑے مذہب پسند ممالک ہیں۔
غیر فطری جنسی لابی: یہ دنیا کے ہر مہذب ملک میں کھُل کر کام کر رہی ہے۔ بل کہ بہت سے ممالک نے اسے قانونی تحفظ بھی دے رکھا ہے۔ چنانچہ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یوروپی ممالک قانون کی نہ صرف چھتری میں اس کے فاعل اور مفعول ہیں بلکہ درپردہ بھی یہ دھندا جاری ہے۔ اور تو اور ایسے ممالک بھی اس لابی کا شکار ہیں جہاں ہر چند قوانین اس کے خلاف ہیں مگر اندرونِ خانہ یہ دھندا زور و شور سے جاری ہے۔ یہ کام دنیا میں سب سے پہلے لوط علیہ السلام کی قوم نے شروع کیا تھا جو ابراہیم علیہ السلام کے ہمعصر تھے۔ہر چند کہ اُس قوم کو تباہ و برباد کر دیا گیا مگر کو ئی نہ کوئی بد بخت اس برائی کو جاری رکھنے میں مصروف رہا جو یہ آج بھی قائم ہے۔ اس کے نقصانات بے شمار ہیں اور ایک دنیا جانتی ہے کہ نقصان ہیں مگر ہمارے ’’مہذب‘‘ ملکوں نے چوں کہ اسے قانونی تحفظ فراہم کر رکھا ہے لہٰذا یہ برائی ختم ہونے میں نہیں آرہی۔ سب سے بڑا نقصان اس کا خاندان کا عدم وجود ہے۔ جس کا خمیازۃ ہمارے یہ نام نہاد مہذب ملک آئندہ پچاس برسوں میںبھُگت لیں گے جب انکی نسلیں مِٹ جائیں گی۔
لیکن ہمیں اپنا بھی جائزہ لینا چاہئیے۔ پاکستان بھی اس لابی کا شکار ہے۔
دولت کی ریل پیل کی لابی: ہوتا یہ ہے کہ چند لوگ بیوروکریسی اور سیاسی گرگوں سے مل کر حکومتی ٹھیکے حاصل کر لیتے ہیں اور بے تحاشا دولت کے مالک بن جاتے ہیں اور پھر اس ناجائز دولت سے مزید دولت اور دولت مند تخلیق کرتے ہیں ۔ پھر یہ اس دولت سے ہر طرح کے مہرے ادھر اُدھر کر کے کئی طرح کے فوائد حاصل کرتے ہیں۔اپنے ملک میں اس کی زندہ مثال آج کل کافی کیسز بھُگت رہی ہے۔اور ہم اسلامی جمہوریہ ہیں! ہے ناں حیرتناک بات؟