اسلام آباد ہائی کورٹ نے عامر لیاقت کو کسی بھی چینل پر تاحکم ثانی پروگرام، تجزیہ دینے سے روک دیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تاحکم ثانی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو کسی بھی چینل پر پروگرام کرنے اور تجزیہ دینے سے روک دیا۔بدھ کواسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں سابق وزیر اور معروف ٹی وی اینکر پر نفر ت آمیز مواد پر مشتمل پروگرام اور معاشرے میں تفرقہ پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر تاحیات پابندی کے لئے دائر درخواست پر سماعت کی جبکہ درخواست گزار محمد عباس کی جانب سے بیرسٹر شعیب رزاق عدالت میں پیش ہوئے۔درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نام نہاد عالمِ دین ہیں اور ان کے پاس اسلامی تعلیمات کی کوئی مستند ڈگری موجود نہیں۔بیرسٹر شعیب رزاق نے کہا کہ عالم آن لائن کے ذریعے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کئی برس سے معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت حسین اپنے پروگرام میں کفر اور غداری کے فتوے لگاتے ہیں اور ان کے فتوں سے کئی لوگوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔انہوں نے الزام لگایا کہ عامر لیاقت حسین ذہنی طو ر پر بیمار ہیں اور اپنے پروگرام اور تجزیوں کے ذریعے وہ پیمرا کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ پیمرا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ عامر لیاقت حسین کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔انہوں نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا پر عامر لیاقت حسین کے تمام اکانٹس بند کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست گزار کے وکیل کا موقف سننے کے بعد تاحکم ثانی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو کسی بھی چینل پر پروگرام کرنے اور تجزیہ دینے سے روکنے کا حکم دے دیا۔عدالتِ عالیہ نے درخواست پر وفاقی حکومت، پیمرا، پی ٹی اے اور عامر لیاقت حسین سے جواب طلب کرلیا اور سماعت 10 جنوری 2018 تک کے لیے ملتوی کر دی۔