اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا
آج کل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں آنے والی خبروں پر غور کرنے سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ جیسے ہمارے ملک میں صرف اور صرف چند مسائل ہی ہیں اور ان میں سب سے بڑا مسئلہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا احتساب ہے، وہ پیشی پر کب آئیں گے، کب روانہ ہوں گے، کتنی گاڑیاں ساتھ ہوں گی، کب واپس آئیں گے، اگلی پیشی کب ہو گی وغیرہ، اگرچہ احتساب کے عمل سے قوم کے اندر ایک نئی اُمنگ جاگی ہے لیکن مسائل اور بنیادی مسائل کچھ اور بھی ہیں جن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ملک میں شہری آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ دیہاتوں اور قصبوں سے افراد بہت بڑی تعداد میں منتقل ہو رہے ہیں اور گزشتہ بیس برسوں میں تو یہ تعداد ہوشربا تھی۔ زرعی زمینیں کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور رئیل اسٹیٹ کا کام اپنے عروج پر ہے، پلاٹ نقد اور قسطوں پر، دکانیں نقد اور قسطوں پر اور بس۔ہر شہر، ہر ضلع اور تحصیل میں یہ کام زوروں پر ہے۔ ان میں سے حکومتی اداروں سے غیر منظور شدہ ہاؤسنگ سکیموں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
ملتان شہر کے گرد و نواح میں حکومت سے غیر منظور شدہ ہاؤسنگ سکیموں کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان سکیموں کو غیر قانونی تو قرار دے دیا گیا لیکن ان کے خلاف عملی اقدامات کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ حتمی اور عملی نقصان بہرحال ان بیچارے عوام کا ہی ہوتا ہے جو سکنی یا کمرشل پلاٹوں کو نقد اور خاص طور پر قسطوں پر خریدتے ہیں، قسطوں کی ادائیگی کے بعد جب رجسٹری کا وقت آتا ہے تو ان لوگوں کے ہوش اُڑ جاتے ہیں اور انہیں پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہاؤسنگ یا کمرشل سکیم تو حکومت سے منظور شدہ تھی ہی نہیں۔ اب یا تو سکیم کا تعمیر کنندہ غائب ہو جاتا ہے یا حکومت سے منظور کروانے کے اخراجات خریداروں پر ڈال کر معاملے کو التوا میں ڈال دیتا ہے۔ شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز، انتظامیہ اور عدلیہ کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام لٹنے سے بچ جائیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جمہوریت کا فائدہ بہرحال پراپرٹی ڈیلرز اور اسٹیٹ ڈویلپرز ہی اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنی سیاسی وابستگی کو ’’کاروبار‘‘ چلانے میں استعمال کرتے ہیں۔ عوام کے پاس قانونی چارہ جوئی اور انتظار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا جبکہ ڈویلپر کسی اور جگہ جا کر اپناکام چلا رہا ہوتا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ سکنی اور کمرشل سکیمیں ان زمینوں پر بنتی ہیں جو زراعت کے کام آتی ہیں۔ جس رفتار سے یہ سکیمیں بن رہی ہیں اس سے زراعت کا خاصا نقصان ہو رہا ہے۔ کاشتکار زراعت کی درست منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث اس بات میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنی زرعی زمین کو رہائشی سکیم میں بدل دے۔ ایسا کرنے سے اسے اپنے زرعی رقبے کی بہتر قیمت وصول ہو جاتی ہے۔ ہم اس بات کو بھولے ہوئے ہیں کہ ان رہائشی سکیموں میں ضرورت سے زیادہ اضافے کے باعث زراعت کا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ بچائے یہ کہ ہم بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنائیں ہم قابل کاشت رقبے کو سکنی رقبے میں تیزی سے تبدیل کررہے ہیں۔جب لوگ تیزی سے بننے والی رہائشی سکیموں میں رہائش اختیار کریں گے تو ان کی روزمرہ ضروریات کے لئے بجلی اور گیس بھی فراہم کرنی ہوں گی جبکہ ان دونوں چیزوں پر ملک میں بحرانی کیفیت ہے۔ یہ کمی کس طرح پوری کی جا سکے گی۔ اسی طرح سیوریج اور پینے کے پانی کا مسئلہ۔ لیکن محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ ہم بغیر کسی جامع منصوبہ بندی کے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اب دیہاتوں اور قصبوں کے رہنے والوں پر بھی ایک نظر ڈالی جائے، اگر ان لوگوں کو دیہاتوں اور قصبوں میں ہی سہولیات میسر ہوں تو ان لوگوں کے شہروں میں منتقل ہونے کی رفتار کم ہو جائے گی۔ بنیادی مراکز صحت کو ترقی دینے کی ضرورت ہے اور اگر یہ چھوٹی موٹی ایمرجنسی کی سہولیات سے لیس ہو جائیں تو دیہات کے رہنے والے سکون کا سانس لے سکیں گے، اسی طرح میٹرک تک تعلیم کا بندوبست بھی قصبات کا حق ہے، روزمرہ کے استعمال کی ضروری اشیاء کا آسانی سے دستیاب ہونا اور سب سے بڑھ کر زرعی اصلاحات اور زراعت کی ترقی۔ اگر کاشتکار یا زراعت سے منسوب کاروبار اور پیشوں کی سرپرستی کی جائے تو یہ لوگ دیہات کی ہی زندگی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ دیہاتوں اور قصبوں کا شہروں اور منڈیوں سے رابطہ بہتر سے بہتر ہونے سے بھی زراعت سے وابستہ لوگ خوشی محسوس کریں گے لیکن اگر یہ لوگ شہروں کے گرد بننے والی ہاؤسنگ سکیموں میں ہی بسنا چاہیں تو کوئی حکومتی تناسب مقرر کیا جانا چاہئے اور سکیموں کو باقاعدہ حکومتی اداروں سے منظور ہونا چاہئے تاکہ ان سکیموں میں پلاٹ خریدنے والے خود کو محفوظ سمجھیں۔