جہاں ایک طرف انسان کی یہ پیدائشی جبلت ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا وہاں دوسری طرف یہ بھی ازلی حقیقت ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان پر ہر وقت ہر معاملے میں غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، دراصل بالغ نظری سے دیکھیں تو یہ وہی مقام ہے جہاں سے بنیادی برائیاں جنم لینا شروع ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ اْٹھا کر دیکھ لیں کہ جیسے ہی انسانی ارتقاء کا عمل شروع ہوا اسکی شخصی ضروریات نے تنازعات در تنازعات کو جنم دینا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں انسانیت کی تاریخ میں آدم اور حواء کی اولاد قابیل اور ہابیل کے درمیان ہونے والا جھگڑا اور پھر اسکے نتیجے میں ہابیل کا ہونے والا قتل اسکی اولین اور تاریخی حوالے سے اہم ترین مثال ہے۔ جیسے پہلے عرض کر چکا کہ انسان کی یہ جبلی صفت ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا لہٰذا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکے سماجی میل میلاپ سے جہاں مختلف گروہ ابھرے وہاں بیشمار سماجی مسائل نے بھی سر اْٹھانا اور اس سماج میں بسنے والے انسانوں کو عدم تحفظ سے دوچار کرنا شروع کر دیا۔کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ انسان کو عقل آئی اوراس نے اپنے تحفظ کی خاطر باہمی گفت و شنید کے ذریعے کچھ اصول و ضوابط کی تشکیل کو ضروری سمجھا اور اسطرح کچھ عمرانی معاہدوں کے ذریعے ایک منظم معاشرہ کا وجود عمل میں آیا جو پہلے نسلی بنیادوں پر قبائل کی شکل میں نظر آیا جب قبائل کو ایک دوسرے سے خطرات لاحق ہوئے تو اْنھوں نے اپنے تحفظ کی جستجو میں پہلے دوسرے قبائل کے ساتھ آپس میں ازدواجی رشتے داریاں استوار کر کے اپنے آپکو کو مضبوط کرنے کی سعی کی اور پھر علاقائی بنیادوں پر اتحاد قائم کرنے میں اپنی عافیت سمجھی جو بالآخر جغرافیائی بنیادوں پر حکومتوں کی شکل میں واضع ہوئیں۔ تاریخ انسانی قابیل اور ہابیل کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے لیکر آج تک حربی تصادموں اور ہولناک جنگوں سے بھری پڑی ہے جسکی انتہا جنگِ عظیم دوئم میں دیکھنے کو اس وقت ملی جب لاکھوں نہیں کروڑوں معصوم جانیں چند ناعاقبت اندیشوں کی بیوقوفی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ جنگ عظیم دوئم میں گو کہ یہودیوں کی ایک کثیر تعداد لقمہ اجل بنی اور دنیا میں یہ تاثر ابھرا کہ ہٹلر کی یہ جنگ یہودی نسل کے خلاف تھی لیکن وسعت نظری سے دیکھا جائے تو ہٹلر نے یہ جنگ ایک استحصالی نظام کے خلاف شروع کی تھی جسکو دنیا بھر کی یہودی لابی کنٹرول کر رہی تھی اور یہ بالکل اسی قسم کے حالات تھے جو آج اسرائیل کی وجہ سے دنیا اور خاص کر مشرق وسطی کے حوالے سے ایک بار پھر انسانی تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کی اپنی ایک الگ داستان ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 14 مئی 1948ء سے جب سے اسرائیل کا قیام وجود میں آیا ہے اس دن سے لیکر اج تک ایک دن ایسا نہیں گزرا جب اس ملک کے جارحانہ عزائم میں کمی آئی ہو۔ آٹھ لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل اس ملک کا حوصلہ اس وقت بڑھا جب 1949ء میں اسے عرب اسرائیل کی جنگ میں چند کامیابیاں ملیں اور پھر پہلے 1967ء اور دوبارہ 1973ء وہ دو منحوس ترین سال ہیں جب ان دو لڑائیوں میں عربوں کی شکست نے اسرائیلیوں کے جارحانہ اور ظالمانہ حوصلوں کو وہ تقویت بخشی کہ 2006ء تک اس نے فلسطینیوں اور لبنانیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2006ء پہلا سال تھا جب حماس اور حزب اللہ نے پہلی دفعہ اسرائیلیوں کو ناکوں چنے چبوائے اور ان سے جان چھڑوانے کیلئے اسے جنگ بندی کا سہارا لینا پڑا۔ حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف کامیابی کے متعلق یہ مشہور اور عمومی تاثر ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے فلسطین کے قرب میں واقع شام اور اس سے کچھ دوری پر واقع اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے افرادی اور حربی مدد کا وہ ہاتھ ہے جو یہ دونوں ممالک کسی نہ کسی صورت ان دو تنظیموں کو پہنچا رہے ہیں۔ دنیا کی سیاست اور سٹریٹیجک صورتحال پر نظر اور دسترس رکھنے والوں کا خیال ہے کہ خلافت کے نام پر بننے والی دہشت گرد تنظیم داعش کا وجود در پردہ اسرائیل اور امریکہ کی دراصل اس حکمت عملی کا حصہ تھا جسکا مقصد اور اصل ہدف مملکت شام کو کمزور کرنا تھا جو حزب اللہ اور حماس کو بالواسطہ اور بلاواسطہ سپورٹ کر رہی ہے جبکہ ایران کے خلاف امریکی واویلا اور پابندیاں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں جسکا یہ دونوں ملک بڑی حد تک بڑی کامیابی سے مقابلہ کر پائے ہیں اور یہاں اب داعش کا وجود بڑی حد تک مفقود نظر آتا ہے۔ ان دنوں جب مشرق وسطیٰ کی سیاست حالیہ کچھ اقدامات کے تناظر میں بہت گرم نظر آ رہی ہے اتفاقاً نومبر کے آخری ہفتے میں میرا اسلام آباد جانا ہوا جہاں ایرانی سفارتخانے کے پریس کونسلر جناب عباس بدریفار سے میری ملاقات ہو گئی۔ کہتے ہیں فارسی زبان بولنے اور سننے میں جتنی آسان اور میٹھی لگتی ہے اسکے بولنے والے بھی اسی مناسبت سے اپنی شناخت اور شیریں طرز عمل کے ذریعے کچھ اس قسم کی خوشبو بکھیرتے ہیں کہ محفل کا سارا ماحول معطر ہو جاتا ہے اور پاس بیٹھا ہر شخص اپنا ہی لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اور عملی مشاہدہ مجھے اس وقت ہوا جب اس جاذب النظر شخصیت کے ساتھ میں نے پچھلے ہفتے کوئی ایک گھنٹے کی نشست کی۔ نشست کے آغاز کے ساتھ ہی رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد اس شخص نے سب سے پہلے گفتگو کا آغاز جس جملے سے کیا وہ یہ تھا کہ پچھلے مہینے پاکستان کے چیف آف آرمی کا دورہ جو کہ بیس سال بعد پاکستان کے کسی آرمی چیف کا پہلا دورہ ہے اس پر پورے ایران میں جو خوشی اور اطمینان کی لہر پائی جاتی ہے اسکے اظہار کیلئے ہمارے پاس دستیاب الفاظ بہت کم دکھائی دیتے ہیں جس پر راقم کا یہ سوال تھا کہ ایران کا دورہ تو پاکستان کے سابقہ چیفس راحیل شریف اور پرویز مشرف نے بھی کئے تھے جسکے جواب میں عباس صاحب کا کہنا تھا کہ راحیل شریف ایک سرکاری وفد میں اس وفد کے ایک ممبر کے طور پر جبکہ پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو کے طور پر گئے تھے۔ آرمی چیف کے حالیہ دورے اور گزشتہ دو ماہ سے سفارتی محاذ پر ہونے والی پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی کونسلر کا خیال تھا کہ اس سے پاکستان اور ایران کے درمیان مثبت تعلقات کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اپنے نقطہ نظر کو بیان کرتے ہوئے مسٹر عباس بدریفار کا خیال تھا کہ امریکہ خاصکر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیہودہ سوچ کے تابع ان چکروں میں ہے کہ وہ کس طرح مسلم ممالک کو مختلف بلاکس میں تقسیم کر کے انکو باہم دست و گریباں کرے اور پھر گریٹر اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کرے۔ جب راقم نے ان سے اس سلسلے میں سوال کیا کہ کیا وہ ان آراء کی روشنی میں مستقبل قریب میں مشرق وسطی میں کوئی بڑا تصادم دیکھ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ خدشہ خارج از امکاں بھی نظر نہیں آتا۔ میرے اس سوال پر کیا اس امکانی تصادم سے بچننے کی کوئی راہ کوئی راستہ کوئی وسیلہ، جسکے جواب میں مسٹر عباس کا کہنا تھا کہ ہاں اسلامی دنیا میں ایک ایسا ملک ہے جو یہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے میں نے پوچھا وہ کون جس پر وہ صاحب بصیرت بولا پاکستان۔ یہ سن کر میرا سر فخر سے بلند ہوا ہی چاہتا تھا کہ ایرانی پریس کونسلر نے مجھ سے پوچھا کہ موجودہ حالات میں ہم تو پاکستان سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں لیکن آپ اپنے ملک پاکستان کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں۔ بس یہی اک وہ لمحہ تھا جب پوری نشست میں فرفر بولنے والے طارق امین پر سکتہ طاری ہو گیا اور کچھ دیر کیلئے راقم گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔ لمحوں کی خاموشی کے بعد صرف اتنا کہہ پایا کہ بہت روشن اگر ایک کمال اتاترک مل جائے… ایک امام خمینی مل جائے یا پھر سے اِک بار میرے قائد محمد علی جناح کے کردار والا کوئی مجاہد مل جائے!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38