طاہر القادری نے دھرنا کنٹینر ایک بار پھر تیار کر لیا ہے۔ یہ ’’کنٹینر‘‘ پنجاب اسمبلی کے باہر براجمان ہو گا یا حسب روایت اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گا، اس بارے ابھی کچھ نہیں بتایا گیا۔ تاہم لاہور اور راولپنڈی میںواقع طاہر القادری کی رہائش گاہ اس وقت ہنگامہ خیز سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ایک لیڈر آ رہا ہے تو دوسرا آنے کی تیاری کر رہا ہے۔ سب سے پہلے پی ٹی آئی والوں نے شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ماڈل ٹائون یاترا کی۔ کوئی لیڈر آئے اور پریس کانفرنس نہ کرے، کیسے ممکن ہے۔ دونوں رہنما بولے اور گفتگو میں نواز شریف اور شہاز شریف کی اچھی خاصی خبر لی۔ شاہ محمود قریشی کی واپسی ہوئی تو پتہ چلا کہ اب سابق صدر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے چند مرکزی رہنمائوں کے ہمراہ طاہر القادری کی اقامت گاہ پر آ رہے ہیں۔ زرداری آئے تو طاہر القادری کی رہائش گاہ ایک بار پھر میڈیا کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ پل پل کی خبر عوام تک پہنچنے لگی۔ اس وقت دونوں رہنما کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اُن کی تمام حرکات و سکنات پر میڈیا والوں کی نظر تھی اور 35سے زیادہ کیمرے اُن پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُن کے کسی ایک پل کو بھی نظروں سے اوجھل نہیں دیا جا رہا تھا۔ زرداری صاحب اور علامہ طاہر القادری کے مابین ایک بند کمرے میں ہونے والی اس رسمی ملاقات اور رسمی گفتگو کے بعد ایک عدد پریس کانفرنس بھی ہوئی۔ اس پریس کانفرنس میں زرداری صاحب نے نواز شریف سے زیادہ شہباز شریف کو ہدفِ تنقید بنایا، نہ صرف اُن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا بلکہ جیل جانے کی بھی بات کی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ منہاج القرآن والے جب بھی سڑکوں پر آئے ، وہ اُن کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی مِل کر حکومت کے خلاف تحریک چلائیںگے۔ اس ’’تحریک‘‘ میں کتنا دم ہو گا اس کا اندازہ تحریک چلنے کے بعد ہی ہو گا۔ ابھی تو صرف یہ تبصرہ یا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ طاہر القادری کی رہائش گاہ پر دیگر رہنمائوں کی آمد کا جو سلسلہ جاری ہے وہ کیا رنگ لائے گا؟ پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کی بھی ساتھیوں کے ہمراہ ماڈل ٹائون لاہور آمد ہوئی۔ حسبِ روایت پریس کانفرنس بھی کی گئی۔ مصطفیٰ کمال نے ماڈل ٹائون میں ہونے والے قتل عام کا ذمہ دار پنجاب حکومت ، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنا ء اللہ کو ٹھہرایا۔ مصطفیٰ کمال کی ماڈل ٹائون سے واپسی ہوئی تو شیخ رشید آ گئے۔ شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ ہیں۔ اگرچہ نیشنل اسمبلی میںاُن کی ایک ہی سیٹ ہے تاہم اپنی شعلہ بیانی کے باعث وہ ہمیشہ منفرد حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ وہ جہاں بھی ہوتے ہیں حکومت کے خلاف تحریک کی بات کرتے ہیں، گھیرائو جلائو اُن کے منشور یا ایجنڈے کا حصہ ہے۔ آف دی ریکارڈ انہوں نے علامہ طاہر القادری سے کیا کہا ، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے علامہ صاحب کو کنٹینر پر چڑھنے کے لیے آمادہ کیا ہو گا۔ زرداری صاحب، علامہ صاحب کے پاس آئے تھے تو انہوں نے تاریخی دھرنا کنٹینرکو 24گھنٹے تیار رکھنے کا حکم صادر کیا تھا اور کہا تھا کہ کنٹینر دھرنا مارچ کے لیے کسی وقت بھی روانہ ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا گمان ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور اُس کی قیادت اس وقت سخت مشکلات میںگھِری ہوئی ہے۔ شریف فیملی کو ایک طرف نیب ریفرنسز تو دوسری طرف سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر مل کیس کا سامنا ہے۔ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پر اگر شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں آتی ہے تو ن لیگ کے لیے مزید مشکلات بڑھ جائیں گی۔
نواز شریف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم کے عہدہ سے تو مستعفی ہو چکے ہیں۔ اس ’’فیصلے‘‘ کے نتیجے میں نااہل بھی قرار پائے ہیں لیکن اُن کی بنائی ہوئی حکومت ’’اہلیت‘‘ کے معیار پر اب بھی قائم ہے اور اپنے دن پورے کر رہی ہے۔ یہاں ایک بات اور رہ گئی کہ ماڈل ٹائون میںجہاں زرداری اور شاہ محمد قریشی سمیت شیخ رشید آئے وہاں ق لیگ والے بھی پیچھے نہ رہے۔ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی کی قیادت میں ایک وفد ماڈل ٹائون طاہر القادری سے ملنے آیا اور انہیں احتجاجی تحریک میں اپنی جماعت کی طرف سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ ان تمام یقین دہانیوں سے طاہر القادری کو کوئی حوصلہ ملا یا نہیں لیکن انہوں نے تاحال دھرنا مارچ کے لیے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی کسی سوچ و بچار میں ہیں۔
الیکشن کے دن بھی جوں جوں قریب آ رہے ہیں سیاسی درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مسلسل جلسے کر رہی ہے۔ ہر جلسے میں مخالفین کو لتاڑا اور للکارا جاتا ہے۔ عمران خاں اس کام میں سب سے آگے ہیں۔ چند روز پہلے شیخوپورہ کے ایک جلسۂ عام میں جس کا اہتمام پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے کیا تھا عمران خان نے نہ نواز شریف کو چھوڑا، نہ ہی شہباز شریف کو۔ ڈی سی شیخوپورہ اور پی سی بی کے چیئرمین نجم سیٹھی کی بھی خوب درگت بنائی۔ عمران خان جوشِ خطابت میںکسی مخالف پر تنقید کرتے ہوئے اس قدر حد سے بڑھ جاتے ہیں کہ اُن کے منہ میں جو آتا ہے کہتے چلے جاتے ہیں۔ یہ روش، نہ سیاست، نہ ہی اُن کے لیے اچھی ہے۔ کسی اور نے اُن کے بارے میں ’’کچھ ‘‘ کہنا شروع کیا تو انہیں بہت شکایت ہو گی۔
بہرحال پاکستانی سیاست کے شاید یہی وہ رنگ ہیںجس سے پاکستانی سیاست گدلی اور دھندلی نظر آتی ہے۔ آنے والے دن نواز شریف اور ن لیگ کی حکومت کے لیے بہت مشکل ہیں۔ لاہور سے دھرنا کنٹینر چلا تو ن لیگی حکومت کے لیے مشکلات اوربڑھ سکتی ہیں۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ اب نوے کی دہائی والی سیاست نہیں رہی۔ ن لیگ کے مدمقابل پی ٹی آئی کی صورت میں ایک مضبوط اپوزیشن موجود ہے جو پیپلز پارٹی کی طرح ہرگز فرینڈلی نہیں۔ اسی لیے ن لیگ کے لیے جتنا بھی وقت ہے، اُسے سوچ سمجھ کر گزارے۔ دیکھتے ہیں آنے والا وقت سیاست میں کیا اتار چڑھائو لاتا ہے۔ دھرنا کنٹینر لاہور سے نکلتا ہے یا نکلنے سے پہلے ہی قصّہ پارینہ بن جاتا ہے ، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ کنٹینر نکلتا ہے تو پنجاب حکومت اُسے اپنی ہی حدود میںرکھتی ہے یا آگے جانے دیتی ہے۔ ہر لحاظ سے آنے والے، دو،تین مہینے ن لیگ اور ہماری سیاست کے لیے بڑے اہم ہیں۔