فیض آباد کے دھرنے اور جسٹس باقر نجفی رپورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے تخت لاہور کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھ میں نجفی رپورٹ کی صورت میں ایک مضبوط ہتھیار آ گیا ہے جسے استعمال کرکے وہ ’’مثبت نتائج‘‘ حاصل کرسکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے شب و روز محنت کرکے پنجاب کو مسلم لیگ(ن) کا مضبوط قلعہ بنایا۔ پی پی پی اور تحریک انصاف دونوں تخت لاہور کی اُمیدوار ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ میاں شہباز شریف کو بھی میاں نواز شریف کی طرح سیاسی طور پر مجروح اور مفلوج کردیا جائے تاکہ مسلم لیگ(ن) 2018ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ آصف زرداری پاکستانی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ جسٹس باقر نجفی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وہ فوری طور پر منہاج سیکرٹریٹ لاہور پہنچے تاکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک اور دھرنے کے لیے آمادہ کرسکیں جس کی کامیابی کے امکانات فیض آباد دھرنے کی کامیابی کے بعد بڑھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ’’سیاسی کزن‘‘ عمران خان نے نہ صرف پبلک ریلی میں اپنے تعاون کا یقین دلایا بلکہ پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اپنی جماعت کا وفد منہاج سیکریٹریٹ بھجوایا۔ مسلم لیگ(ق) پنجاب کی قابل ذکر جماعت ہے جو 2018ء میں اپنی پارلیمانی قوت بڑھانے کیلئے جوڑ توڑ کر رہی ہے۔ تخت لاہور اگر سیاسی طور پر کمزور ہوجائے تو مسلم لیگ (ق) فائدہ اُٹھا سکتی ہے لہذا چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرکے انہیں تخت لاہور پر آخری ضرب لگانے کی ترغیب دی۔
پیرپگارا خود کو جی ایچ کیو کا بندہ کہا کرتے تھے۔ شیخ رشید احمد کو ’’عسکری سفیر‘‘ سمجھا جاتا ہے انکے انتخابی حلقے راولپنڈی میں جی ایچ کیو واقع ہے لہذا وہ خود بھی عسکری قوتوں سے قربت کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بھی ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کرکے انہیں آخری فیصلہ کن رائونڈ کیلئے آمادہ کرنے پر زور دیا ہے۔ ختم نبوت جیسا حساس مسئلہ ابھی تک مسلم لیگ (ن) کا پیچھا کررہا ہے۔ سجادہ نشین پیر حمیدالدین سیالوی کی کال پر مسلم لیگ(ن) کے سیاسی قلعہ فیصل آباد میں ختم نبوت کانفرنس میں اہلسنت جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد شریک ہوئے جس میں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 2 ایم این ایز اور 3 ایم پی ایز نے اپنے استعفے پیر سیالوی کے پاس جمع کرادئیے جو مسلم لیگ (ن) کیلئے بڑا سیاسی دھچکہ ثابت ہوئے ہیں جبکہ مزید استعفوں کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں۔پیر صاحب نے اعلان کیا ہے کہ اگلی ختم نبوت کانفرنس لاہور میں ہوگی انہوں نے وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کے استعفے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر دبائو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور دیگر اہم قوتیں مارچ میں سینیٹ کے انتخابات سے بہت خوف زدہ ہیں اگر مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ میں اکثریت حاصل کرلی تو زخمی شیر ضد اور انا میں آکر ایسی قانون سازی کرسکتا ہے جو مقتدر اداروں کو کمزور کرسکتی ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما خوش فہمی اور خود فریبی کا شکار نظر آتے ہیں وہ عوام کے موڈ اور مائنڈ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان نے درست کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا مزاحمتی بیانیہ انتخابات میں مہنگا پڑسکتا ہے۔ میاں نواز شریف اگر عدلیہ کے فیصلہ کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہوکر رہبر کا کردار قبول کرلیتے اور قانون میں تبدیلی کرانے کی بجائے پارٹی صدارت اپنے چھوٹے بھائی کے سپرد کر دیتے تو مسلم لیگ(ن) سنگین بحران کا شکار نہ ہوتی مگر انہوں نے عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بعد عدلیہ کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ سقراط نے جب عدلیہ کے فیصلے کے بعد زہر کا پیالہ پینے کا ارادہ کرلیا تو اسکے رفقاء نے کہا آپ سے ناانصافی ہوئی ہے آپ زہر کا پیالہ کیوں پیتے ہیں تو سقراط نے جواب دیا مجھے ریاست کے قانون کا احترام کرنا ہے۔ میاں نواز شریف حکومتی اور جماعتی اختیارات تو استعمال کررہے ہیں مگر وہ عوام کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالوں کے جواب نہیں دیتے۔ فاٹا اصلاحات کو تماشہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ ختم نبوت کا مسئلہ کیوں چھیڑا گیا۔ برآمدات کم کیوں ہوئیں۔ اربوں روپے کے غیر معمولی قرضے کہاں خرچ ہوئے۔ امیروں سے ٹیکس کیوں نہیں لیا گیا اور سارا بوجھ غریبوں پر کیوں ڈال دیا گیا۔ سٹیل ملز اور پی آئی اے کی تباہی کا ذمے دار کون ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی ذمے داری کس پر ڈالی جائے۔ میاں صاحب ان بنیادی سوالوں کے بارے میں مکمل طور پر خاموش ہیں ان کیخلاف صف بندی ہو رہی ہے۔ اگلے انتخابات نواز شریف اور اینٹی نواز شریف سیاسی قوتوں کے درمیان ہوں گے۔ تین بار وزیراعظم رہنے کے بعد میاں نواز شریف کی شخصیت میں وہ چاشنی اور دل کشی نہیں رہی جو اگلے انتخابات میں کامیابی کی ضامن بن سکے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کی روشنی میں میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستعفی ہوکر قانون کے سامنے پیش ہوں اور عدلیہ سے اپیل کی ہے کہ پانامہ کیس کیلئے جے آئی ٹی کی طرح سانحہ ماڈل ٹائون کیلئے بھی جے آئی ٹی بنائی جائے تاکہ چودہ معصوم افراد کے قاتل بے نقاب ہوسکیں۔ میاں شہباز شریف نے عدالتی کمشن کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد اس بارے تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ حالاں کہ رپورٹ میں پنجاب حکومت کو سانحہ ماڈل ٹائون کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے جس کے وہ چیف ایگزیکٹو ہیں۔ آجکل یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا ڈاکٹر طاہرالقادری ایک اور دھرنا دینے پر تیار ہوجائینگے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس ووٹ بنک نہیں ہے البتہ منظم اور مثالی سٹریٹ پاور موجود ہے جس کا وہ دوبار یادگار مظاہرہ کرچکے ہیں۔ دھرنے سے مسلم لیگ(ن) کی قیادت سیاسی طور پر کمزور ہوگی جس کا فائدہ پی پی پی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اُمیدواروں کو ہوگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری مشروط دھرنے پر آمادہ ہوسکتے ہیںاگر اپوزیشن جماعتیں ان کو نئے سیٹ اپ میں وفاق و صوبے میں چند وزارتیں دینے کی گارنٹی دیں۔ پی پی پی اور تحریک انصاف چند نشستوں پر پاکستان عوامی تحریک سے سیٹ ایڈجسٹمینٹ کرسکتی ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے ہاتھ میں آئینی آپشن موجود ہے وہ مناسب وقت پر نئے انتخابات کا اعلان کرسکتی ہے جس کا اشارہ وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بھی دیا ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں ریاست اور قوم کے مفاد میں ایک سال کی نگران حکومت پر آمادہ ہوجائیں تو عدلیہ احتساب کا عمل قابل ذکر حد تک مکمل کرسکے گی اور مقررہ وقت پر انتخابات میں حائل قانونی رکاوٹیں بھی دور کی جا سکیں گی۔ مگر افسوس پاکستان کے قومی اور عوامی مفادات کے ضمن میں سیاسی جماعتوں کا کردار افسوس ناک ہی رہا ہے۔ اسلام آباد میں مختلف لابیاں سرگرم ہیں۔ ایک لابی کا خیال ہے کہ پاکستان کو جمود اور انحطاط سے نکالنے اور اسے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچانے اور سکیورٹی کے سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹیکنوکریٹ قومی حکومت کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے مگر آئینی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ایک اور لابی کا خیال ہے کہ پی پی پی اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی جنوری فروری 2018 میں استعفے دے دیں اور قبل ازوقت انتخابات کرادئیے جائیں۔ اگر حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں سیاسی بلوغت اور بصیرت کا مظاہرہ کریں تو وہ افہام و تفہیم سے کسی فارمولے پر اتفاق رائے کرسکتی ہیں۔ پاکستان کا نمبرون مسئلہ قومی سلامتی ہے۔ امریکہ پاکستان کو تسلسل کیساتھ کھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ان حالات میں قومی اتحاد اور یکجہتی سے ہی دھمکیوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ سیاستدان پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی بجائے ہر قیمت پر تخت لاہور کو گرانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ کاش میاں صاحب گول میز کانفرنس بلاکر سیاسی اتفاق رائے پیدا کریں۔ مگر افسوس انہوں نے اپنے آپ کو متنازع بنا لیا۔ کچھ لو کچھ دو کے اُصول پر قوم کو انتشار اور فساد سے بچایا جاسکتا ہے۔ پاکستان ہوگا تو سیاسی جماعتیں اور سیاست بھی ہوگی۔سیاستدانوں اور مقتدر ریاستی اداروں کو علامہ اقبال کی زبان میں یہی کہا جاسکتا ہے:۔
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں