پی ایم ڈی سی کی گوشمالی ضروری کیوں؟
چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے پی ایم ڈی سی اور نجی میڈیکل کالجوں کے معاملات کا از خودنوٹس لے لیا ہے۔ نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں اور پی ایم ڈی سی کے درمیان محاذ آرائی گذشتہ کئی سالوں سے جاری تھی۔ وافقان حال کے مطابق اس محاذ آرائی کاآغاز اس وقت سے شروع ہوا جب سے پی ایم ڈی سی نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی انسپکشن کا سلسلہ کیاتو پی ایم ڈی سی کونسل کے بعض ارکان نے مبینہ طور پر بہت سے میڈیکل کالجوں کے مالکان سے بھاری رقوم کا مطالبہ کیا لیکن جب بہت سے مالکان نے بھتہ دینے سے انکار کیا تو پرائیویٹ میڈیکل اینڈ دینٹل کالجوں اور پی ایم ڈی سے کے مابین محاذ آرائی نے شدت اختیار کر لی۔ ابھی چند روز پہلے ہی لاہور ہائیکورٹ کے ایک معزز ڈویثزن بینچ نے پی ایم ڈی سی کے بگڑے ہوئے امور کو درست کرنے کیلئے ایک تفصیلی فیصلہ کیا ہے جس میں پی ایم ڈی سی کونسل کی از سرنو تشکیل دینے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ میرٹ پر کونسل کے ارکان کا انتخاب کیا جا سکے کیونکہ سفارشی پروگرام کے تحت کونسل کے آنے والے ارکان نے پی ایم ڈی سی کے معاملات کو درست کرنے کی بجائے مزید بگاڑ دیا ہے۔عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو تین ماہ کی مدت میں 1962کے آرڈننس کی سیکشن 3 کے تحت نئی کونسل تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔جس کے بعد 25 اپریل2016کے آرڈننس کے تحت بنائی گئی کونسل ختم کر دی گئی ہے کیونکہ آرڈننس کی مدت ختم ہونے کے بعد 1962کے آرڈننس کے تحت بنائی گئی تاہم کونسل کے آئین اور جو امور کونسل نے 25 اپریل 2016 کے بعد نپٹائے ہیں انہیں نئی کونسل کے تشکیل تک قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔عدالت عالیہ نے پی ایم ڈی سی کی موجودہ کونسل نئی کونسل کی تشکیل تک پی ایم ڈی سی کے روز بروز کے پیشہ وارانہ امور سر انجام دے گی اور کوئی نئے ریگولیشن یا موجودہ ریگولیشز زیر آرڈننس 1962 میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کر سکے گی۔عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ ریگولیشن7)(8))9(6ّٓاور (۱۱)ریگولیشن 2016 بشمول مرکزی داخلہ پروگرام پی ایم ڈی سی زیر آرڈننس 1962کسی قسم کی کاروائی کی مجاز نہیں ہوگی جو کہ اس کی قانونی حدود سے باہر ہو گااور ایسی کاروائی مذکورہ آرڈننس کے تحت غیر قانونی اور اختیارات سے متجاوز ہوگی اس لئے اسے غیر قانونی قرار دیا جس کا کوئی قانونی تاثر نہ ہوگا۔عدالت نے مزید حکم دیا کہ ایسے طلبہ جہنوں نے جون 2017اے لیول مکمل کیا ہے وہ Sate II کے نمبروں کی بنیاد پر 2017-2018سیشن میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کے مجاز ہو گے عدالت نے مزید حکم دیا کہ کونسل کے تمام فیصلہ جات بشمول ریگولیشن 2017اور اس کے ساتھ ایسے تمام نقات جو پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز اور طلباء نے اٹھائے ہیں وہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے سامنے ان کا معیار اور طریقہ کار جو کہ 2016کے ریگولیشن میں طے کیا گیا ہے پر نظرثانی کرئے گی تاکہ آئین کی تعمیل اگلے چھ ماہ کے اندر ہوسکے۔عدالت عالیہ نے یہ حکم بھی دیا کہ مستقبل میں پی ایم ڈی سی سی سی آئی کی نگرانی اور کنٹرول میں کام کرئے گی اور اس کی تمام پالیسی اور ریگولیشنز جو پی ایم ڈی سی تیار کرئے گی سی سی آئی اس کی منظوری دے گی بشرطیکہ کہ وہ آئینی حدود میں ہوں۔ عدالت عالیہ لاہور کے اس فیصلے کے بعد ہم امید کرتے ہیں کہ پی ایم ڈی سی اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے حکام اس ملک کے طلباء اور طالبات کے مفادات کو مدنظر رکھے ہوئے تمام امور خوش اسلوبی سے سر انجام دیںگے نہ کہ پی ایم ڈی سی اس مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بنائیں گے ہم یہ امید بھی کرتے ہیں کہ دونوں فریق مستقبل قریب میں ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی سے بھی گریز کریں گے کیونکہ عدالت عالیہ نے صرف اور صرف پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلے لینے والے طلباء کے مفادات کو مدنظر رکھے ہوئے فیصلہ کیا ہے ۔