کی محمدؐ سے وفا تونے
آمنہ کے چاندؐ کی ولادت بھی ایسی ولادت تھی کہ نہ پہلے کبھی ایسی ولادت ہوئی اور نہ آئندہ کبھی ہوگی۔آپؐ کی ولادت سے قبل ہی آپؐ کی آمد کا شُہرہ چہار دانگِ عالم ہو چکا تھا۔ اہلِ کتاب کے بڑے بڑے لوگ آپ ؐ کی آمد اور آپ ؐ کے مرتبے کی خبر دے چکے تھے۔ امام قسطلانی نقل فرماتے ہیں کہ آپؐ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ نے روایت کی ’’جب میرا بیٹا میرے بطن میں تھا اور 6 ماہ گزرے تھے تو مجھے ایک رات خواب میں بشارت دی گئی کہ آپ کے بطن میں جو بچہ ہے اُس کانام اللہ تعالیٰ نے خود رکھ دیا ہے‘‘۔سیرت ابنِ حشام میں آپؐ کے دادجناب عبدالمطلب سے روایت کی گئی ہے کہ ’’ولادتِ محمدؐ کے وقت میں طوافِ کعبۃ اللہ میں مشغول تھا۔ میں نے دیکھا کہ ساری کائنات جس کعبہ کا طواف کرتی ہے وہ میرے گھر کی طرف جھکا جا رہاہے ۔اوراِس جھکنے کے سبب کعبۃاللہ کے تمام بُت اوندھے منہ گر کر ٹوٹ گئے‘‘۔ گویاآنحضورؐ کی ولادت ِ با سعادت سے خدا کے حقیقی نظام(اسلام)کے نفاذ کا آغازہوا ہے ۔اور یہی وہ نظام ہے جس کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے یہ کائنات تخلیق کی گئی۔آپؐکے آنے سے تاریکی چھٹ گئی ۔ بتوں پر زوال اور بت پرستوں کو شعورآگیا۔ شرک توحید میں بدل گئی ۔ پتھر دل رحم دل ہو گئے۔ بے چینی اور اضطراب ،امن اور سکون میں تبدیل ہوگئے۔ جاہل زمانے کے استاد بن گئے۔ نظامِ ابلیس تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ جن کو بات کرنے کا شعور نہ تھا آج بھی دُنیا اُن کی تہذیب اور قوانین کی نہ صرف مثال دیتی ہے بلکہ اپنے لیے اُن قوانین میں نجات تلاش کرتی ہے۔ یہی فلسفۂ میلاد ہے کہ یہ واقعہ دراصل تاریخِ انسانی کے سب سے بڑے مگر پُرامن انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہُوا۔ اِسی مضمون کو جناب مریدِ اقبال علامہ غلام فریدؔ نقشبندی نے اپنے نعتیہ کلام میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے:۔
تیری آمد کی جُونہی خبر ہو گئی
یہ شبِ تار وقفِ سفر ہو گئی
رُک چکے کارواں تھے جو چلنے لگے
تیرگی چَھٹ گئی سب ، سحر ہو گئی
بندگی ناشناسائے وحدت تھی جو
نُورِ وحدت سے وہ بہرہ وَر ہو گئی
ناشکیبی کو صبر و قرار آ گیا
تیری نظرِ کرم کارگر ہو گئی
بزم میں لوٹ آئے سہانے سمے
آزری گویا محفل بدر ہو گئی
مل گئی بُھولے بھٹکے کو راہِ نجات
آدمیّت سبھی دیدہ ور ہو گئی
جشن تُو بھی منا اِس خوشی پر فریدؔ
تجھ خطاکار پہ بھی نظر ہو گئی
آمنہ کے چاند حضرت محمدؐ کی آمد اللہ رب العزت کا احسانِ عظیم ہے ۔آپؐبلاشبہ نعمتِ عظمیٰ ہیں۔آپؐ سے بڑی کوئی نعمت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا نہیں کی ۔نعمت کے عطا ہونے پرپر خوشی کا اظہار عین فطری ہے اور دیگر مذاہب کی طرح اسلام سے بھی ثابت ہے۔ میلادِ رسولؐ عیدین سے بڑی عید ہے اور عیدکو اسلام میں تہوار کا درجہ حاصل ہے۔ انسان کی طبیعت ،افکار اور نقطہ ہائے نظر زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ اسی لیے تہواروں کو منانے کے طریقے اور رسوم بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔مگر میلاد ِ مصطفیٰؐ کا معاملہ عام تہواروں سے یکسر جدا ہے۔ یہاں معاملہ احترام و اجلالِ نبویؐ کا ہے۔ چنانچہ قصداً تو درکنار سہواً بھی کوئی ایسی رسم/ غلو جشنِ میلادمیں خوشی کے نام پریا کسی دوسرے کی ضد میں شامل نہیں کی جا سکتی جو حضورؐ کی قدر و منزلت اور مقام کے شایانِ شان نہ ہو اوردیکھنے والے اُس سے کوئی غلط مفہوم اخذ کر سکیں۔ آج کل اِس پہلو کوعلما ء اور عوام النا س غرضیکہ ہر سطح پرنظر اندازکیا جاتا ہے۔ لہذا علمائے دین کا یہ فرض ہے کہ پہلے خود اِس کا ادراک کریں پھر عوام الناس کو اس کا شعور دیںاوراُن کی تربیت کریںتاکہ میلاد النبیؐ کے جشن میں غلو اورعجیب رسوم وغیرہ خوشی کے نام پرقطعاً شامل نہ کی جا سکیں۔ میلادِ رسولؐ پر خوشی کا اظہار کیسے کیا جائے ؟اِس سوال کا جوا ب مصورِ پاکستان، شاعرِ مشرق ، حکیم الامّت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے نہایت مکمل اور جامع دیا ہے 1929 ,1930 میںآپؒ نے اُس وقت کے مشاہیرِ قوم ، علمائے کرام ، سجادہ نشین صاحبان اور سیاسی اکابرین کو اپنے ساتھ ملا کر میلادِ رسولؐ کا جشن منانے کے لیے ہندوستان کے معروف اخبارات میں یہ اپیل شائع کرائی۔
’’اتحادِ اسلام کی تقویت ، حضور سرورِ کائناتؐ کے حقیقی احترام و اجلال، حضورؐ کے پیغام کی اشاعت اور ملک میں بانیانِ مذہب کے صحیح مقام و مرتبے سے آگاہی کے لیے بارہ ربیع الاوّل کو ہندوستان کے طول و عرض میں ایسے عظیم ترین تبلیغی جلسوں اور مظاہروں (جلوسوں) کا انتظام کیا جائے جو حضور سیّد المرسلینؐ کی عظمتِ قدر کے شایانِ شان ہوں اور جنہیں ساری دُنیا محسوس کر سکے۔ اُس دن ہر ایک آبادی میں علمِ اسلام بلند کیا جائے اور تمام فرزندانِ اسلام بلا استثناء اِس علم کے نیچے جمع ہو کر خدا وندِ پاک سے یہ عہد کریں کہ وہ ہر قدم پر رسولِ عربیؐ کا نقشِ قدم تلاش کریں گے۔ اُنؐ کی ہی محبت میں زندہ رہیں گے اور اُنؐ کی ہی اطاعت میں جان دیں گے ۔ ‘‘
یہ اپیل سبیلُ الرّشاد کے صفحہ ۔ 34,35 پر 1934 میں چھپی جس کے مرتب سید ممتاز علی آف لاھور ہیں۔اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کلمہ گونے پورے ہندوستان میںمفکرِ ملّت کی اِس صدا پر لبیک کہااور جشنِ آمدِ رسولؐ نہ صرف حقیقی طور پر منایا گیا بلکہ آئندہ کے لیے برصغیر میں اِس کی بنیاد بھی پڑ گئی۔