احساسِ ذمہ داری وقت کی ضرورت
16 دسمبر2015 پاکستان کی تاریخ کا بدقسمت ترین دن تھا جس میں بدترین دہشت گردی کے حملے میں اے پی ایس کے ننھے اور معصوم پھولوں کو مسخ دیا گیا یہ دن ہمیشہ یومِ سیا ہ کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔ جس میں سو سے زائد مائوں کے لخت ِ جگروں کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔تب سے پاکستانی سیاست اور سوچ میں یکسر تبدیلی آئی اور ملک کے بچے بچے کو دشمن کے عزائم کا پتہ چل گیااور اس دھرتی کی حفاظت اور نگہبانی کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ تین سال گزرنے کے باوجوداس بدقسمت واقعے کے اثرات اور زخم تازہ ہیں۔مادرِ وطن کے باسیوں نے جس عزم و ہمت سے دہشت گردی کا سامنا کیا اور کر رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔اتنی جارحیت اور خون کی ہولی کھیلنے کے باوجودامن دشمن مخالفین اپنے گھٹیا عزائم سے باز نہیں آئے اور وقتاََ فوقتاََ اپنے ناپاک اور مضموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے امن خراب کرنے کے در پے رہتے ہیں۔سانحہ اے پی ایس کے علاوہ بھی کئی ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جن میں ہمارے فوجیوں ،سپاہیوں اور عام شہریوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھائیں۔اِن میں ایسے ایسے خوبصورت اور کڑیل جوانوں نے شہادت نوش فرمائی جو اپنے گھر کے واحد چشم و چراغ تھے۔ایسے ان گنت نام ہیںجو اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اس مٹی کے لیے امر ہو گئے۔ملک کی امن و سلامتی کے لیے شہادتوں کا سلسلہ کم تو ضرورہوا لیکن تھما نہیں۔محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے انتہا پسند قومیں پاکستان کی امن و سلامتی کے خلاف کمر بستہ ہو گئیں ہیں۔ایسے نازک حالات میں ملک کے علمی ادبی ، مذہبی اور سیاسی طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہیئے۔ یک زبان، یک آواز اور یکجا ہو کر صبر و تحمل اور دور اندیشی کا ثبوت دے کر اپنے دین اور ملک کا دفاع کرنا ہو گا۔ اپنے عوام کے اند ر تحفظ ، حب ُ الوطنی اور اعتماد جیسے جذبات کو ابھارنا ہو گا۔جلائو گھیرائو ، شدت پسندی اور انتہا پسندی جیسی سوچ نسلوں میں منتقل کرنے کی بجائے خود قول و فعل کے ذریعے امن و آتشی کا ثبوت دینا ہو گا۔پاکستان شاید وہ واحد ملک ہی ہو گا جہاں سیلاب، زلزلے ، جنگیں طویل ترین دھرنے اور دہشت گردی سرفہرست رہی ہے۔ایسے حالات میں اگر قوم اور لیڈران اب بھی اپنی سوچ اور فکر کو نہ بدلیںتو اس کشتی کا اللہ ہی مالک ہے۔(شبانہ اسدعباسی،اسلام آباد)