انسانی حقوق کا عالمی دن
0 1 د سمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیاہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی قدر و اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ۔اس دن کے حوالے سے ملک بھر میں مختلف سیمینارز ،تقریبات اور ورک شاپس کا اہتمام بھی کیا گیا۔عالمی ادارے کی جانب سے 1948میں انسانی حقو ق کے تحفظ کے لئے چند قوانین میں متفقہ طور پر یہ باتیں طے کی گئیں کہ ہر انسان کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہو گا ۔وہ اپنی مرضی کے مطابق رہن سہن اختیار اور آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکے گا ۔اسی طرح رنگ ،نسل،ذات پات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائے گا ۔قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے ۔کسی بھی فرد کو ظالمانہ طریقے سے گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔عدلیہ اور مقننہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں مقدمات چلائیں گی اور کسی بھی ملزم کو اس وقت تک بے قصور خیال کیا جائے گا جب تک اس پر مکمل طور پر جرم ثابت نہیں ہو جاتے ۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وطن عزیز پاکستان میں ہر فرد کو اس کے حقوق حاصل ہیں ۔اس کا جواب یقینا نفی میں آئے گا ۔کیونکہ اس حوالے سے پاکستان کے طول و عرض کا جائزہ لیا جائے تو ہر سو نا انصافیوں کا کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انسانیت کانپ اٹھتی ہے ضمیر لرز جاتے ہیں ۔انسانی حقوق کی پامالیوں کی بے شمار داستانیں بکھری دکھائی دیتی ہیں ۔ ملک بھر کے دیہی علاقوں میںجاگیرداروں ،وڈیروں اور زمینداروں نے اپنی نجی جیلیں قائم کر رکھی ہیں اور وہاں مردوں عورتوں اور بچوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رکھا جاتا ہے اور ان سے غلاموں کی طرح کھیتوں میں کام لیا جاتا ہے ۔وہ عمر بھر ان ظالموں کی نجی جیلوں میں مقید رہتے ہیں اور وہیں وہ خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں ۔اس کے علاوہ قبیح رسم و رواج کے نام پر قتل و غارت گری کی جاتی ہے ۔ماحول کے تدارک کے لئے اب تک حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ان علاقوں میں حکومتی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے افراد خواہ وہ شہری ہوں یا دیہی عوام کے لئے ملک عزیز میںزیست بسر کرنا بھی ایک جنگ سے کم نہیں ۔انہیں با اثر لوگوں کے سامنے ہمیشہ ہی منہ کی کھانی پڑتی ہے اورجو عالمی دن کی مناسبت سے منعقد سیمینارز میں بطور وی آئی پی شخصیات شرکت کرتے ہیں اور اپنے بہترین فن خطابت سے لوگوں کے دل موہ لیتے ہیںلوگوں کو ان کے حقوق کی یاد دہانی کروارہے ہوتے ہیں ، وہی باہر ان کے حقوق پامال کرتے دکھائی ہیں ۔ 2فیصد ایلیٹ کلاس 98فیصد کو محکوم بنائے رکھتی ہے ۔دراصل یہاں انسانی حقوق بھی انہیں ہی حاصل ہیں اور یہی انسانی حقوق کے چمپئین کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔حکمرانوں کی ذمہ داری اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہے لیکن ان کی توجہ تو اس کی جانب ہے مگر زیادہ توجہ اس کے بجائے کسی اور ہی جانب ہے ۔ایک طرف ملکی عوام بنیادی ضرورتوں شفاف پانی،بجلی اور گیس کے بحران کا شکار ہیں دوسری جانب ہمارے حکمران ملکی ترقی کے ضرورت سے زیادہ راگ الاپتے نہیں تھکتے ۔ساتھ ہی مہنگائی کا بوجھ لاد کر ان کے جینے کے حق کو پامال کرتے ہیں ۔یہ تو محض چند ایک ناانصافیوں کے تذکرے ہیں ایسے میں کتنے ہی عالمی دن منا لئے جائیں ،سیمینارز ،ورک شاپس اور تقریبات میں بڑھ چڑھ کر بلند بانگ دعوے کر لئے جائیں ۔ان کے ذ ریعے وطن عزیز میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال میں بہتری ہرگز نہیں لائی جا سکتی ۔اس کے لئے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی حقیقی معنوں میں انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت نتیجہ خیز فیصلے کرنا ہوں گے تب ہی ملکی حالات کو ان کے حقوق میسر آسکتے ہیں ۔