معالج سے علاج کرانے میں ہی عافیت
رحمن ضیاء
صحت کے لئے فکر مند لوگوں کی کمی نہیںہے۔ میڈیا کے فروغ نے معلومات میں اضافہ ضرور کیا ہے لیکن ان معلومات سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے‘ اس شعور کا فقدان ہے لہٰذا لوگ مغربی دنیا کی تحقیقی رپورٹس، نت نئے طبی انکشاف اور لرزہ خیر حقائق پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو زعم ہوتا ہے کہ وہ بہت دانشمند ہیں لہٰذا وہ صحت کے معاملات میں بھی اپنی دانائی استعمال کرتے ہیں۔ یہ اپنی ذات کی حد تک نہیں رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ادویہ اور تدابیر تجویز کرتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں نقصان کا سودا کرتے ہیں مثلاً اس میں شبہ نہیں ہے کہ موٹاپا یا وزن کی زیادتی نقصان دہ ہے۔ اس سے نجات ضروری ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بلاسوچے سمجھے فاقہ کشی شروع کردی جائے یا اشتہارات سے متاثر ہو کر بھانت بھانت کے غیر مصدقہ غذائی سپلیمنٹس یا ادویات کا استعمال شروع کر دیا جائے۔ فاقہ کشی اور غیر مستند ادویہ کا استعمال بھی نقصان دہ ہے، اس طرح پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا ہے مگر اس پرتوجہ کم ہی لوگ دیتے ہیں۔ موٹاپا موروثی بھی ہوتا ہے اور کچھ صورتوں میں ہارمونی نظام کی خرابیاں بھی اس کا سبب بنتی ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں کسی مستند معالج کی رہنمائی ضروری ہے۔ یقیناً موٹاپے سے دنیا بھر کے لوگ پریشان ہیں خصوصاً بچوں میں بڑھتا ہوا موٹاپا ہر ملک میں موجود ہے لیکن اس مسئلے سے نجات انہی لوگوں کو ملتی ہے جو فاسٹ فوڈز، کولا مشروبات کا استعمال ترک کرنے کے ساتھ جسمانی فعالیت ( ورزش) کو اپنے معمولات کا لازمی حصہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ بے جواز فاقہ کشی اور ادویہ کے نقصان دہ اثرات سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ ہڈیوں کی کمزوری بھی ایک عام عارضہ ہے‘ تحقیق بتاتی ہے کہ کیلشیم اور وٹامن ڈی کے ساتھ سوڈیم فلورائیڈ کی کمی اس کا سبب بنتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی بازار جاکر یہ اشیاء خرید لے اور ان کا استعمال شروع کردے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کیلشیم اور فلورائڈ کی کمی کی طرح ان کی زیادتی بھی ہڈیوںکو نقصان پہنچاتی ہے۔ ضرورت ہونے پر کس فرد کو کتنی مقدار اور کب تک استعمال کرنی چاہئے یہ فیصلہ معالج کو کرنے دیں۔ خود معالج نہ بنیں یوں بھی غذا کے ردو بدل سے ضروری غذائی اجزاء کا حصول یقینی بن سکتا ہے جبکہ اس میں نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اپنا اور اپنے گھر والوں کا مرض تشخیص کرکے دوا کا انتخاب کرنا بھی ایک عام عارضہ ہے۔ ایک عام فرد کے مقابلے میں ڈاکٹر امراض کی تشخیص اور علاج کا غیر معمولی تجربہ رکھتا ہے لیکن کوئی بھی سمجھ دار معالج اپنا علاج خود نہیں کر تا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں امراض کے اسباب اور علامات کے بارے میں معلومات با آسانی دستیاب ہیں‘ ان سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے۔ چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور سمجھدار لوگ اپنے مرض کی درست تشخیص کرسکتے ہیں لیکن وہ علاج کا تجربہ نہیں رکھتے ہیں لہٰذا وہ اپنی معلومات اپنے معالج کے علم میں لاکر اس سے ہی علاج تجویز کرائیں۔ علاج میں دوا کی مقدار اور استعمال کی مدت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے اگر آپ کو کسی مرض میں کسی دوا سے فائدہ ہوا ہے تو وہ دوا علامات کی سو فیصد مماثلت کے باوجود کسی اور کے لئے مختلف ہو سکتی ہے۔
خود تشخیصی اور علاج کے ممکنہ نقصان یہ بھی ہو سکتے ہیں۔
٭ علامات کو سمجھنے میں غلطی: ۔
دل کا دورہ پڑنے والے کچھ لوگ اپنی سینے کی تکلیف کو ہاضمے کی خرابی یا گیس ٹربل سمجھنے کے باعث مر جاتے ہیں۔
٭ دوا کا غلط یا غیر ضروری انتخاب:۔
اینٹی بائیوٹک ادویات کا وائرل بیماری میں استعمال اس کی ایک عام مثال ہے۔
٭ دوا کی کم یا زیادہ مقدار اور دورانیہ:۔
ہر مریض کے لیے دوا کی مقدار اور استعمال کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے جس میں کمی یا زیادتی دونوں نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
جرمنی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تعلیم یافتہ 62فیصد افراد مرض یا خرابی کی درست تشخیص کرلیتے ہیں اس کا انحصار ان کی ذہانت اور درست معلومات پر ہوتا ہے۔
مکمل صحت مند زندگی کے لیے مثبت سوچ اور منفی جذبات سے بچنا ضروری ہے۔ جسمانی طور پر صحت مند بہت سے افراد غصے، حسد، انتقام اور خوف کے منفی خیالات سے جکڑے ہوتے ہیں، یہ لوگ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہوتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں منفی خیالات کا دبائو جسمانی عارضوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ منفی سوچ اور ذہنی انتشار کی بنیاد بچپن کی تربیت اور گھریلو ماحول سے پڑتی ہے۔ ایک سمجھ دار ماں باپ گھریلو ماحول کو دوستانہ اور خوشگوار بنا کر اپنے اہل خانہ کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند بناسکتے ہیں۔ دوسروں سے ہمدردی، اچھے اخلاق اور دوستانہ جذبات فروغ پاکر فرد کی سماجی صحت کو بھی شاندار بناتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہونے والے تحقیقی مقالوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ورزش اور پسندیدہ مشاغل فرد کو مستعد اور فعال رکھتے ہیں۔ ورزش ہر عمر، ہر صنف اور ہر علاقے کے لوگوں کے لیے ضروری ہے۔ ورزش غیر ضروری چربی کا خاتمہ کرتی ہے۔ دل کی تقویت اور دماغی توانائی کا سبب بنتی ہے، ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں مناسب ورزش کرنے والے ترو تازہ اور چاق و چوبند رہتے ہیں، ان کی دماغی صلاحتیں بھی کم زوال پذیر ہوتی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ عمر کے ساتھ جسمانی توانائی میں کمی ضرور ہوتی ہے لیکن بوڑھے افراد کے لیے گوشہ نشینی اور مسلسل آرام سخت نقصان کا باعث بنتا ہے۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بوڑھوںکو پہلے سے زیادہ سماجی زندگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود مفید اور کارآمد زندگی بسر کرتے ہیں جنہیں اپنے اہل خانہ اور احباب کی بھرپور توجہ ملے۔ بزرگوں کی صحت ان کے بچوں کے لیے بھی ذہنی طمانیت کا ذریعہ بنتی ہے اور بڑھاپے کی امکانی بیماریوں سے محفوظ افراد علاج پر ہونے والے اخراجات سے بھی بچ سکتے ہیں۔ مختصراً یہ بات سب کو سمجھ لینی چاہئے کہ گھر کے ہر فرد کو جسمانی، ذہنی اور سماجی اعتبار سے صحت مند رہنا چاہئے۔ یہ ممکن ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس پر توجہ نہیں دیتی ہے۔