پاکستان کی آزادی کو 65 برس کا عرصہ گذر چکا ہے ، کئی آئین بنے اور مخصوص مفادات کے ناطے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ۔ مخصوص مفادات کی اِسی سیاست نے ملک کو دولخت بھی کیا لیکن حکمرانوں کے اطوار نہیں بدلے ،البتہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذولفقار علی بھٹو کا 1973 کا آئین کچھ زیادہ ہی سخت جان ثابت ہواجو سیاسی دھاروںکے مخصوص مفادات سے رگڑا کھانے اور اقتدار کی غلام گردشوں کی صوابدیدی مفاد پرستانہ سوچ سے گزرنے کے باوجود آج بھی دائم نہیں تو قائم ضرور ہے۔ 2008 کے انتخابات میں ملک میں جمہوریت اور 1973 کے آئین کی بحالی کے بعد یہ قوی اُمید ہو چلی تھی کہ عوام الناس کی بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھی جمہوریتوں کی طرح پاکستان میں بھی جمہوری حکومت آمرانہ صوابدیدی اختیارات کو عوام الناس پر مسلط کرنے کے بجائے آئین و قانون کی پاسداری پر عمل درامد کو یقینی بنانے کےلئے کام کریگی لیکن وفاق میں اتحادی جماعتوں کی جانب سے بظاہر سیکولر پالیسیوں کے اپنائے جانے کے بعد موجودہ حکومت نے قیام پاکستان کے بنیادی نکات سے ہی پہلوتہی کرتے ہوئے آئین کی انتہائی اہم شقوں کو پس پردہ ڈال دیا ہے جس کے سبب ملکی اخلاقی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 2 میں کہا گیا ہے کہ اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا چنانچہ آئین کے آرٹیکل 2A کے تحت Objective Resolution کو 1973 کے آئین کا substantive part بنایا گیا ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 32(1) (2) (b) میں ریاست کو اسلامی طرز زندگی اور اسلامی اخلاقی اصولوں کی پاسداری کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے لیکن ہمارا سیاسی المیہ یہی ہے کہ ہمارے حکمران اجتماعی عوامی بہبود پر امانت و دیانت، عدل و انصاف اور اسلامی اخلاقیات کے زاویہ نگاہ سے عمل پیرا ہونے کے بجائے آئینی حدود و قیود سے بے پرواہ ہو کر عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو بھی تعطل میں ڈالتے ہوئے قومی وسائل کو لوٹ مار، کرپشن اور بدعنوانی کا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ حکمرانوں پر ڈنگ ٹپاﺅ فلسفہ اور منافقانہ رنگ اِس قدر غالب آ چکا ہے کہ عوام کو حقیقی سچائی اور اخلاقیات سے آشنا کرنے کے بجائے حکمران عوامی سطح پر مبینہ طور پر نازی جرمنی کے وزیر گوئیبلز کی جھوٹ اور منافقت پر مبنی ڈِس انفارمیشن پھیلانے پر کاربند ہیں۔ اِسی حوالے سے حکمران اتحاد کے سابق وزیراعظم گیلانی آئینی موشگافیوں کی اوٹ میں چار برس کا عرصہ گزار کر بھی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہے اور توہین عدالت کے زمرے میں سزا پاکر اپنے عہدے سے ہٹا دئیے گئے اور اب حالت یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا استثنیٰ ختم ہونے کے باوجود گیلانی صاحب اپنی غلط کاریوں کا جواب دینے کےلئے کسی قانونی اور اخلاقی دلیل کے بغیر تفتیشی ایجنسیوں کے سامنے پیش ہونے سے بھی گریزاں ہیں ۔
عوام حیران پریشان ہیں کہ کیا حکمران سیاسی اتحاد کے قائدین اہم قومی معاملات کو سلجھانے کےلئے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے خلاف اپیل میں جانے یا سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کرنے کے بجائے عدلیہ کے فیصلوں اور ججوں کو دھمکیوں سے نوازنے پر ہی کیوں مُصر ہیں ۔ کالا باغ ڈیم ہو یا کراچی میں شفاف انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام ہو ، اِیسے قومی معاملات کو متعلقہ فورمز پر طے کرنے کی ضرورت کو سنجیدگی سے محسوس کرنا چاہئیے۔ اِسی طرح اگر کراچی میں نادرا کی مبینہ غفلت کے سبب انتخابی فہرستوں کی درستگی کےلئے شفاف عمل کی ضرورت پیش آئی ہے تو ججوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اِس فیصلے کا خیر مقدم کیا جانا چاہئیے لیکن حکمران عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کے برعکس آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب دُہری شہریت کے حامل وزراءبھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے پر ناقابل فہم انداز میں اُنہیں مشیران کرام کے طور پر پھر سے وزارتوں پر فائز کر نے سے گریز نہیں کرتے ہیں جس کا موثر تدارک کیا جانا چاہئیے۔
اِسی طرح آئینی تناظر میں اگر فکر کے دھاروں کو کھولا جائے تو آئین کے آرٹیکل 251 (1) (2) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی اور ایسے انتظامات کئے جائیں گے کہ 15 برس کے اندر سرکاری اور دیگر معاملات میں اُردو زبان کے حوالے سے ایسے انتظامات کئے جائیں گے تاکہ انگریزی کی جگہ اُردو کا استعمال عمل میں لایا جائے چنانچہ اِس آئینی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے اُردو کو سرکاری دفاتر میں رائج کرنے کےلئے محکمہ مقتدرہ قومی زبان قائم کیا گیا تھا جس نے سرکاری دفاتر میں اُردو کی ترویج کےلئے قرار واقعی کام کیا لیکن اُردو کو سرکاری دفاتر میں اُس کا جائز مقام دینے کے بجائے موجودہ حکمرانوں نے مقتدرہ قومی زبان کے ادارے کے چارٹر کو ہی تبدیل کر کے اِسے ادارہ فروغ اُردو میں تبدیل کر دیا ہے ۔حکمرانوں نے شاید اِس حقیقت کو بھلا دیا ہے فروغ اُردو کےلئے تو بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم نے اُردو زبان کو انگریزی اور عربی کے مقابل لانے میں اپنی زندگی ہی وقف کر دی تھی ۔ 1930 میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن میں اُردو ٹرانس لیشن سینٹر قائم کیا گیا تھاجہاں اُردو انگلش ڈکشنری کا اجراءہوا چنانچہ آرٹس اور تیکنیکی مضامین کی تدریس اُردو زبان میں شروع کی گئی۔ مولوی عبدالحق مرحوم نے شب و روز کی محنت سے ماڈرن اُردو کی 22 جلدیں شائع کیں ۔ حیرت ہے کہ برصغیر میں اسلام اور اُردو زبان کی بنیاد پر شروع ہونے والی تحریک پاکستان کی بنیاد پر اُردو زبان کی ترویج کےلئے بابائے اُردو اور دیگر مشاہیرانِ اُردو کے علاوہ علامہ اقبال ، قائداعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان اور ذولفقار علی بھٹوکی کوششوں کو موجودہ حکمرانوں نے پس پشت ڈالتے ہوئے مبینہ طور پر آئینی ذمہ داریوں سے انحراف کیونکر کیا ہے، اِس کا عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا چاہئیے ۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاسی جماعتیں چاروں صوبوں میں اپنی انتخابی مہم انگریزی زبان میں چلاتی ہیں ، یقینا ایسا نہیں ہے بلکہ عوام کو ہر فورم پر اُردو یا علاقائی زبانوں میں ہی مخاطب کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں ایک انگریزی ٹی وی چینل کھلا تھا لیکن عوامی پزیرائی نہ ہونے کے سبب وہ بھی اُردو زبان میں تبدیل ہو گیا۔ کیا چین، جاپان، روس ، جرمنی ، فرانس ، ایران اور سعودی عرب کی تیکنیکی ترقی میں انگریزی زبان کا دخل ہے ، ایسا نہیں ہے ۔ انگریزی کو ایک مضمون کے طور پر پڑھانا تو جائز ہے لیکن انگلش میڈیم سکولز جہاں ایک کلاس ون آفیسر بھی حلال کی کمائی سے اپنے بچوں کی فیس ادا نہیں کر سکتا کے ذریعے محض چند فی صد مراعات یافتہ طبقے کو عوام الناس پر مسلط کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
قارئین کرام ، ملک اقتصادی بدحالی کا شکار ہے ، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے متوسط طبقے اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جبکہ حکمرانوں نے وزیراعظم گیلانی کی نااہلی کے بعد رینٹل بجلی گھروں میں بدترین کرپشن کے الزامات میں ملوث شخصیت کو ہی استثنیٰ سے فائدہ اُٹھانے کےلئے منصب وزیراعظم پر فائز کر دیا ہے جنہوں نے فیصل آباد کے ایک حالیہ سیاسی جلسے میں یہ بے معنی دعویٰ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا کہ اُن کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ملک اقتصادی تباہی کا شکار تھا اور آج اقتصادی صورتحال مکمل طور پر بحال ہو گئی ہے ۔ اُن کے اِس دعوے کا اندازہ 2008 اور 2012 میں روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کو دیکھ کرہی بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ آٹا 14 روپے سے 35 روپے کلو تک چلا گیا ہے ، چینی 22 روپے سے بڑھ کر55 روپے فی کلو ہو چکی ہے ، کوکنگ آئل 90 سے 200 روپے پر جا پہنچا ہے ، دودھ 25 سے 75 روپے لیٹر سے بھی آگے بڑھ گیا ہے ، ڈیزل اور پٹرول کی قیمت 39 اور 56 روپے سے بڑھ کر 100 روپے فی لیٹرسے بھی اُوپر جا چکی ہے ، یوریا کھاد تین سو فی صد سے بھی آگے چلی گئی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں حیران کن انداز میں بڑھتی ہی جا رہی ہیں جبکہ گیس اور بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ سے تنگ آ کر بہت سے صنعتکار اپنی فیکٹریاں بند کرکے سرمایہ دبئی، سری لنکا، بنگلہ دیش ، ملائیشیا اور سنگاپور منتقل کر چکے ہیں ۔ پاکستان میں ڈالر 60 سے 98 تک چلا گیا ہے جس کا تمام تر فائدہ ڈالر میں رقومات رکھنے والے مراعات یافتہ طبقے کو ہو رہا ہے جبکہ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ عوام کی گردن پر ہے۔ جناب وزیراعظم کو اِس اَمر کی بھی وضاحت کرنی چاہیئے کہ کیا موجودہ حکومت نے ملک کو مزید چھ ہزار ارب سے زیادہ بیرونی اور ملکی بنکوں کے غیر معمولی قرضوں میں جکڑ کرملکی اقتصادی بدحالی کو مقامِ آخر تک نہیں پہنچا دیا ہے ؟ کرپشن کا عفریت کیونکر اونچے منصبوں سے شروع ہو کر نچلے ریاستی منصبوں اور اداروں تک حاوی ہوگیا ہے ؟ احباب پروری اور بے انصافی نے میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں اور عدالتی فیصلوں کو کیوں تماشا بنایا جا رہا ہے ؟ بقول شاعر عوام عدلیہ کے حوالے سے بھی یہ جاننا چاہتے ہیں ...
کیوں ضرب چوب و شور سلاسل خاموش ہیں
قیدی بدل گئے ہیں کہ زِنداں بدل گیا ؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024