یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ قدت جب کسی قوم کو سزا دینا چاہتی ہے تو اس طرح کے حکمران بھیج دیتی ہے جو اپنا کام دکھاتے ہیں اور قوم کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ آج کا دور شاید ہماری معاشی زندگی کا بدترین دور ہے، جب جنرل مشرف اور انکے امپورٹڈ وزیراعظم نے تمام قرضے مہنگی شرائط پر 5 سال کیلئے آگے کرائے۔ اس دوران عیاشی میں وقت گذار اور مصیبتیں آنے والوں کیلئے چھوڑ کر لوٹی ہوئی دولت سے مزے کر رہے ہیں مگر ملک میں نہ کوئی انڈسٹری لگی۔ نہ ہی بجلی گھر۔ نہ کارخانہ اور نہ کوئی ڈیم نتیجتاً ملک غریب تر ہوا۔ دنیا میں ملکوں کی معاشی بدحالی کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ جس میں وہ ممالک جنہوں نے جنگوں میں ایٹم بم کھائے۔ اور وہ جن کے دارلخلافوں کی ہر عمارت بم گرنے سے تباہ ہوچکی تھی۔ کارخانے بند۔ بنک بند۔ سکول بند۔ صرف حکومت اور عدالتیں چل رہی تھیں۔ عوام عمارتوں کے ملبے سے چوہے پکڑ کر کھانے لگے۔ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس دوران انگلینڈ کے وزیراعظم نے اپنی کابینہ اور سرکاری ملازمین کی میٹنگ بلائی اور درج ذیل سوال کئے۔
سوال: ہماری کوئلے کی معدنیات کی صنعت کا کیا بنا؟
جواب: سٹیل سیمنٹ اور بجلی کے کارخانے بند ہونے کی وجہ سے کوئلے کی معدنیات بند ہیں۔
سوال: سیمنٹ اور بجلی کے کارخانے کیوں بند ہیں؟
جواب: تمام تعمیراتی کام بند ہیں۔ اس لئے سیمنٹ اور لوہے کی demand نہیں ہے عوام میں بے حد بے روزگاری ہے اور لوگ بھوک سے مررہے ہیں یا چوہے پکڑ کر کھاتے ہیں۔
سوال : ہماری نوٹ چھاپنے والی مشین کہاں پڑی ہے؟
جواب:۔ جناب لندن میں ہے مگر اس کو تو زنگ لگا ہوا ہے کیونکہ نوٹوں اور کرنسی کی ضرورت بہت کم ہے اور بنک بھی بند ہیں۔
سوال : ہمارے صنعتکار اور کاروباری لوگ کہاں ہیں؟
جواب: جناب اکثر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ٹیکس بہت ہیں اور قرض پر سود بہت زیادہ ہے۔
سوال: ہماری حکومت کہاں ہے؟
جواب: حکومت تو اس کمرے میں بیٹھی ہے مگر باقی ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے اور بلوے ہو رہے ہیں ان سوالوں کے بعد وزیراعظم نے مندرجہ ذیل احکامات جاری کئے۔
1۔ تمام سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکسوں کو اگلے 10سالوں کیلئے چھوٹ دے دی گئی۔
2۔ کسانوں کو 10سال کیلئے بلاسود قرض دیا جائے۔
3۔ صنعتوں اور کاروباری اداروں کو ایک سے تین فیصد سود پر 10سال کیلئے قرض دیا جائے۔
4۔ کرنسی چھاپنے والی فیکٹری کو چلایا جائے۔
5۔ ہر وہ عمارت جس پر ایک بم گرا ہو اسے گرا کر ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے (آدھی آبادی اس کام پر جت گئی)
6۔ ہر وہ سڑک جس پر بم گرا ہو یا ٹینک گزرا ہو کوتوڑ کر نئی سڑک بنائی جائے۔
7۔ مزدوروں اور کام کرنے والوں کو روزانہ ہفتہ وار تنخواہ ایڈوانس دی جائے تاکہ وہ اپنی خوراک کپڑے وغیرہ خرید کر کام کرسکیں۔
8 ۔ جو صنعت کار صنعت چلانے کے قابل نہ ہو اسے بیچ دیا جائے۔
ان اقدامات سے فوراً سٹیل سمینٹ بجلی اسٹیشن۔ معدنیات کی انڈسٹری ہفتوں اور مہینوں میں چل پڑی۔ خوراک کپڑے گھروں کے سامان کی ضروریات بڑھ گئیں اور معیشت کار کا ہوا پہیہ دوبارہ چل پڑا۔ تعلیمی اداروں میں تحقیقی کام زور وشور سے چل پڑا اور برطانیہ ایک دفعہ پھر دنیا کے خوشحال ترین ملکوں کی صف میں کھڑا ہوگیا۔
آج کی دنیا ایک دفعہ پھر معاشی کساد بازاری اور انحطاط کا شکار ہے دنیا کے شستہ ممالک اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے براہ راست اقدام لے رہے ہیں۔ ان ڈھیر سارے اقدامات میں سے سب سے پہلا قدم ٹیکسوں اور قرضوں کی چھوٹ معافی یا کٹوتی۔ فالتو فضول خرچی پر سخت پابندی کا عائد کردی۔ گھڑیوں کے وقت آگے کردئیے تاکہ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے رکی ہوئی صنعتوں اور صنعتوں کیلئے آسان شرائط پر سستے قرض کی فراہمی تاکہ ملک میں بے روزگاری نہ پھیلے۔ اور صنعتی یونٹوں کی پیداوار بڑھے۔ اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے اور اشیاء کی وافر فراہمی سے اشیاء کے نرخ کم سے کم سطح پر آسکیں۔ آئیے اب ہم پاکستان کا جائزہ لیں۔
پاکستان میں بجلی کی کمی اور قرضوں کی شرح سود میں زیادتی کی وجہ سے اکثر صنعتی یونٹ یا بند ہوگئے ہیں یا بند ہونے کو تیار ہیں۔ بجلی کی بے وقت بندش کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا بڑھوتری ہوئی ہے اس پر طرہ یہ کہ گزشتہ ایک سال سے لوہے کے خام مال اور تیل کی قیمتوں میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا کیونکہ بین الاقوامی منڈیوں میں ان اشیاء کی قیمتیں چڑھ رہی تھیں مگر ہماری حکومت ان عوامل سے قطع نظر اپنی روش پر چل رہی تھی اور اپنے ٹیکسوں پر زور‘رشوتوں پر زور‘ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اب اگر تیل کی قیمت آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے لیکن سرکار اپنے ریٹ میں صرف پانچ روپے کی کمی کرتی ہے جس سے چلتی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔
اب گورنر سٹیٹ بنک نے یکدم آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود میں دو فیصد اضافہ کرکے چلتی صنعتوں اور کاروبار کو بند کرنے کا یقینی بندوبست کیا ہے جس سے ملک میں بے روزگاری بے انتہا درجے کی بڑھے گی لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے غریبوں کی عصمت سربازار بکنا شروع ہوگئی کیونکہ پیٹ کا ایندھن بھرنا ہے گورنرصاحبہ کی عقل پر حیرانی ہوتی ہے۔
سوال: ہماری کوئلے کی معدنیات کی صنعت کا کیا بنا؟
جواب: سٹیل سیمنٹ اور بجلی کے کارخانے بند ہونے کی وجہ سے کوئلے کی معدنیات بند ہیں۔
سوال: سیمنٹ اور بجلی کے کارخانے کیوں بند ہیں؟
جواب: تمام تعمیراتی کام بند ہیں۔ اس لئے سیمنٹ اور لوہے کی demand نہیں ہے عوام میں بے حد بے روزگاری ہے اور لوگ بھوک سے مررہے ہیں یا چوہے پکڑ کر کھاتے ہیں۔
سوال : ہماری نوٹ چھاپنے والی مشین کہاں پڑی ہے؟
جواب:۔ جناب لندن میں ہے مگر اس کو تو زنگ لگا ہوا ہے کیونکہ نوٹوں اور کرنسی کی ضرورت بہت کم ہے اور بنک بھی بند ہیں۔
سوال : ہمارے صنعتکار اور کاروباری لوگ کہاں ہیں؟
جواب: جناب اکثر ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ٹیکس بہت ہیں اور قرض پر سود بہت زیادہ ہے۔
سوال: ہماری حکومت کہاں ہے؟
جواب: حکومت تو اس کمرے میں بیٹھی ہے مگر باقی ملک میں کوئی حکومت نہیں ہے اور بلوے ہو رہے ہیں ان سوالوں کے بعد وزیراعظم نے مندرجہ ذیل احکامات جاری کئے۔
1۔ تمام سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکسوں کو اگلے 10سالوں کیلئے چھوٹ دے دی گئی۔
2۔ کسانوں کو 10سال کیلئے بلاسود قرض دیا جائے۔
3۔ صنعتوں اور کاروباری اداروں کو ایک سے تین فیصد سود پر 10سال کیلئے قرض دیا جائے۔
4۔ کرنسی چھاپنے والی فیکٹری کو چلایا جائے۔
5۔ ہر وہ عمارت جس پر ایک بم گرا ہو اسے گرا کر ایک نئی عمارت تعمیر کی جائے (آدھی آبادی اس کام پر جت گئی)
6۔ ہر وہ سڑک جس پر بم گرا ہو یا ٹینک گزرا ہو کوتوڑ کر نئی سڑک بنائی جائے۔
7۔ مزدوروں اور کام کرنے والوں کو روزانہ ہفتہ وار تنخواہ ایڈوانس دی جائے تاکہ وہ اپنی خوراک کپڑے وغیرہ خرید کر کام کرسکیں۔
8 ۔ جو صنعت کار صنعت چلانے کے قابل نہ ہو اسے بیچ دیا جائے۔
ان اقدامات سے فوراً سٹیل سمینٹ بجلی اسٹیشن۔ معدنیات کی انڈسٹری ہفتوں اور مہینوں میں چل پڑی۔ خوراک کپڑے گھروں کے سامان کی ضروریات بڑھ گئیں اور معیشت کار کا ہوا پہیہ دوبارہ چل پڑا۔ تعلیمی اداروں میں تحقیقی کام زور وشور سے چل پڑا اور برطانیہ ایک دفعہ پھر دنیا کے خوشحال ترین ملکوں کی صف میں کھڑا ہوگیا۔
آج کی دنیا ایک دفعہ پھر معاشی کساد بازاری اور انحطاط کا شکار ہے دنیا کے شستہ ممالک اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے براہ راست اقدام لے رہے ہیں۔ ان ڈھیر سارے اقدامات میں سے سب سے پہلا قدم ٹیکسوں اور قرضوں کی چھوٹ معافی یا کٹوتی۔ فالتو فضول خرچی پر سخت پابندی کا عائد کردی۔ گھڑیوں کے وقت آگے کردئیے تاکہ سورج کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے رکی ہوئی صنعتوں اور صنعتوں کیلئے آسان شرائط پر سستے قرض کی فراہمی تاکہ ملک میں بے روزگاری نہ پھیلے۔ اور صنعتی یونٹوں کی پیداوار بڑھے۔ اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے اور اشیاء کی وافر فراہمی سے اشیاء کے نرخ کم سے کم سطح پر آسکیں۔ آئیے اب ہم پاکستان کا جائزہ لیں۔
پاکستان میں بجلی کی کمی اور قرضوں کی شرح سود میں زیادتی کی وجہ سے اکثر صنعتی یونٹ یا بند ہوگئے ہیں یا بند ہونے کو تیار ہیں۔ بجلی کی بے وقت بندش کی وجہ سے اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا بڑھوتری ہوئی ہے اس پر طرہ یہ کہ گزشتہ ایک سال سے لوہے کے خام مال اور تیل کی قیمتوں میں تقریباً دوگنا اضافہ ہوا کیونکہ بین الاقوامی منڈیوں میں ان اشیاء کی قیمتیں چڑھ رہی تھیں مگر ہماری حکومت ان عوامل سے قطع نظر اپنی روش پر چل رہی تھی اور اپنے ٹیکسوں پر زور‘رشوتوں پر زور‘ گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کرتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اب اگر تیل کی قیمت آدھی سے بھی کم ہوگئی ہے لیکن سرکار اپنے ریٹ میں صرف پانچ روپے کی کمی کرتی ہے جس سے چلتی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔
اب گورنر سٹیٹ بنک نے یکدم آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود میں دو فیصد اضافہ کرکے چلتی صنعتوں اور کاروبار کو بند کرنے کا یقینی بندوبست کیا ہے جس سے ملک میں بے روزگاری بے انتہا درجے کی بڑھے گی لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے غریبوں کی عصمت سربازار بکنا شروع ہوگئی کیونکہ پیٹ کا ایندھن بھرنا ہے گورنرصاحبہ کی عقل پر حیرانی ہوتی ہے۔