منگل‘ 7 صفر المظفر1446ھ ‘ 13 اگست 2024

یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں باجوں کی فروخت پر پابندی۔
ویسے تو یہ پابندی ہر جگہ لگنی چاہیے۔ بے شک یوم آزادی کے موقع پر سب کا حق ہے کہ وہ دوسروں کو اذیت دئیے بغیر خوشیاں منائیں۔ کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر اس بات کو بھی یاد رکھا جائے کہ جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے وہاں ہماری چھڑی گھمانے کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ ہر کام مناسب انداز میں کرنا اچھا لگتا ہے۔ کئی سالوں سے ”باجا“ نامی اس بیماری کی وجہ سے تو ”ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے“ 
پہلے کیا سائلنسر کے بغیر موٹر سائیکلوں کا گاڑیوں کا شور کم تھا کہ اب ”اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے“ کے مصداق باجے دماغ اور کان کو کھانے لگتے ہیں۔ اس قدر شدید تیز آواز ہوتی ہے کہ بچے سہم جاتے ہیں۔ بزرگ اور خواتین ڈر جاتی ہیں، وہی ”کسی کی جان جاتی ہے تمہارا کھیل ہوتا ہے“ والی بات ہے۔ جشن آزادی منانے والے لاکھوں افراد جب سڑکوں پر بیک وقت اس ناگہانی بلا کو بجاتے ہیں تو یہ ہارنز ، سائلنسر کے شور کے ساتھ مل کر قیامت کا سماں باندھ دیتے ہیں۔ وطن سے محبت کے اور بھی بے شمار طریقے ہیں۔ ان پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنا ئیں، قومی پرچم لہرائیں، ریلیاں نکالیں ، سرکاری اور نجی عمارتوں کو روشنیوں سے بقعہ نور بنا دیں اور کچھ نہیں تو اس باجے کی جگہ ایک پودا خرید کر لگائیں۔ وطن کو سرسبز بنائیں۔ ماحول کو بہتر بنائیں۔ یہ شور شرابا تو ا±لٹا ....آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بچے بوڑھے جوان مرد و زن یہ باجا بجاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی اچانک کسی کے کان کے قریب۔ وہ بے چارا اسے صور اسرافیل سمجھ کر چونک جاتا ہے۔ اس بلائے ناگہانی کی وجہ سے حادثات کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اب حکومت نے اس پر پابندی لگا کر اچھا کام کیا ہے اب اس پابندی پر سختی سے عمل بھی کرایا جائے اور یہ پابندی پورے ملک میں لگائی جائے۔
خیبر پی کے میں گوالوں کو دودھ میں 8 فیصد پانی ملانے کی اجازت۔
 حیرانگی ہوتی ہے اس بات پر کہ یہ خیبر پی کے حکومت کو کیا ہو گیا کہ اس نے یہ دانشمندانہ فیصلہ کیا اور کس خضر صورت بزرگ نے یہ مشورہ دیا۔ اس سے تو گوالوں کو اب قانونی سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ دودھ میں پانی ملانے کا۔ اب صوبے میں کتنی لیبارٹریز ہیں جہاں یہ چیک ہو سکے گا کہ دودھ میں کتنے فیصد پانی ہے اور کتنے فیصد دودھ ہے۔ پہلے کون سا خالص دودھ لوگوں کو دستیاب ہے کہ اب اور آزادی دی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک سروے سے پتہ چلا تھا کہ صرف پشاور شہر میں 97 فیصد دودھ والے ملاوٹ شدہ دودھ فروخت کرتے ہیں۔ کسی ظالم نے اس پر طنز کرتے لکھا تھا باقی جو 3 فیصد دکانیں ہیں یہ غیر مسلموں کی ہوں گی۔ یہ تو دودھ والوں کی صدیوں پرانی روایت ہے کہ وہ بہرصورت ملاوٹ کرتے ہیں۔ خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو انہیں کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں پرانے زمانے میں دودھ میں ملاوٹ کی شرح معلوم کرنے کے لیے حاکم وقت نے اعلان کیا کہ کل رات کو سب دودھ والےمحل کے تالاب میں ایک گڑوی دودھ خالص ڈالیں گے۔ پھر کیا تھا جو بھی گوالا آیا اس نے یہ سوچ کر کہ سب خالص دودھ ڈال رہے ہیں۔ ایک گڑوی اپنے حصہ کا پانی ڈال دیا کہ کسی کو کیا پتہ چلے گا۔ صبح بادشاہ نے جب آ کر دیکھا تو گوالوں کی ایمانداری پر غش کھاتے گرنے سے بچا کہ پورا تالاب پانی سے بھرا ہے۔ کسی بندہ خدا نے ایک گڑوی دودھ بھی نہیں ڈالا۔ تو جناب جب یہ لوگ پہلے نہیں سدھرے تو اب کیا خاک سدھریں گے۔ ملاوٹ شدہ ناخالص دودھ جگہ جگہ بک رہا ہے۔ ورنہ یہ عالی شان شیش محل جیسی دودھ دہی کی دکانیں ویسے تو نہیں بنتیں۔ ریڑھے سے ڈالے کا سفر یونہی تو طے نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ کہہ سکتے ہیں کہ م±ردوں کو محفوظ کرنے والا واشنگ پوڈر ملانے کی بجائے اگر دودھ والے قوم پر رحم کھاتے ہوئے واقعی 8 یا 10 فیصد صاف پانی ملایا کر دودھ فروخت کریں تو بخدا کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ 
راہول گاندھی کو پاکستانی آموں کے تحفے پر بی جے پی کے رہنما اور وزیر سیخ پا۔
یہ تو بھارت کی پرانی عادت ہے کہ وہ ہماری طرف سے ہر جذبہ خیر سگالی کو شک کی نظروں سے دیکھتا ہے اور اس کا اپنا یہ حال ہے کہ اس کے منہ سے کبھی ہمارے لیے خیر کا ایک جملہ تک نہیں نکلا۔ عام ادنیٰ ہو یا اعلیٰ سارے بھارتی انتہا پسند جنونی ہمیشہ پاکستان کے خلاف پاکستانی عوام کے خلاف ان کے جذبہ خیر سگالی کے خلاف آگ ہی ا±گلتے رہتے ہیں۔ اب برصغیر میں پھلوں کے بادشاہ آم کا سیزن عروج پر ہے اور دنیا جانتی ہے پاکستانی آم اپنے ذائقہ خوشبو اور لذت میں دنیا کے بہترین آم تصور ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہر سال پاکستانی سفارتخانوں کی طرف سے دوست سیاستدانوں کو یہ مزیدار مٹھاس سے بھرے آموں کے تحفے بھیجے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔ پہلے تو شاید کبھی مودی یا کسی اور حکومت نے اس پر اتنا شور نہیں مچایا جتنا اب مودی کے چیلے مچا رہے ہیں۔ کیونکہ انہیں تکلیف یہ ہے کہ آموں کا یہ تحفہ راہول گاندھی کو بھی بھیجا گیا ہے۔ بس پھر کیا تھا بی جے پی کے وزیر داخلہ امیت شاہ و دیگر کے پرانے زخم جو انہیں کانگریس کے ہاتھوں الیکشن میں لگے تھے، ہرے ہو گئے اور وہ جل بھن کر کباب ہو گئے اور کہتے پھر رہے ہیں کہ راہول گاندھی کو پاکستان اور وہاں کے آم بہت پسند ہیں۔ وہ محب وطن نہیں اس کے باوجود جن اور رہنماﺅں کو آم کا تحفہ بھیجا گیا۔ ان کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اچھا تھا کہ حکومتی سطح پر پاکستان ایک بڑی پیٹی میٹھے آموں کی نریندر مودی کو بھی بھجوا دیتے۔ ہمارے ہاں کونسے آم کم ہیں کہ ہمیں فرق پڑتا۔ کم از کم بی جے پی والوں کا منہ اور زبانیں تو بند رہتیں۔ حالانکہ ہم نے مہنگی ہاو¿سنگ سکیمیں۔ بنانے کی آڑ میں جس بے دردی سے آم کی پیداوار میں مشہور علاقوں میں آم کے باغات کاٹ دئیے ہیں۔ اس کے بعد تو اب لگتا ہے تحفے تو دور کی بات ہمیں خود کھانے کے لیے بھی آم دستیاب نہ ہوں گے۔ 
ارشد ندیم کا وطن واپسی پر والہانہ استقبال۔
اپنے ہیروز کا استقبال ہر ملک کے لوگ اسی طرح کرتے ہیں۔ گزشتہ روز اولمپین گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کا بھی وطن واپس پہنچنے پر ایسا ہی والہانہ استقبال ہوا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں اور اپنے ہیروز کو دل و جان سے پیار کرتے ہیں۔ یہ استقبال دیکھ کر لاکھوں دل باغ باغ ہو گئے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ اپنے ہیرو کے مقابلے میں اس ہیرو کا استقبال دیکھ کر خاصے برافروختہ بھی ہوئے ہیں حالانکہ ان دونوں کا کوئی جوڑ نہیں۔ وہ فاتح ٹیم کا کپتان تھا یہ تنہا مرد میدان ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ہیروز کا موازنہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنے سب ہیروز سے محبت کرنی چاہیے۔ اب لاہور تا میاں چنوں کا سفر ہی دیکھ لیں۔ استقبال کرنے والوں نے چند گھنٹوں کا سفر کئی گھنٹوں پر محیط کر دیا۔ جگہ جگہ بھرپور استقبال ثابت کرتا ہے کہ ہمارے عوام کھیلوں کے بہت شائق ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے کھلاڑی کھیلوں کے ہر شعبہ میں اپنا نام پیدا کریں اور اسی طرح ہمارا پرچم ہر جگہ بلند ہوتا رہے۔ مگر اس کے لیے حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا وہ باقی کھیلوں کو بھی وہی اہمیت دے جو کرکٹ کو دی جاتی ہے۔ اب جیتنے والے کو کروڑوں روپے کے انعامات دینا احسن فعل ہے مگر اسی طرح اگر ہم کھلاڑی پیدا کرنے والی نرسریوں پر بھی پیسے خرچ کریں تو کھیلوں کے میدان سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح سے ہی بھر جائیں گے اور اعلیٰ ٹیلنٹ سامنے آئے گا اور ہم آئندہ آنے والے اولمپکس میں صرف ایک ہی نہیں اس جیسے کئی گولڈ ، سلور اور برونز میڈل حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب ہمیں سنجیدگی سے نئے ٹیلنٹ کی تلاش کرنا ہو گی جو صوبوں، اداروں اور کھیلوں کی تنظیموں کو فنڈز دے کر ان کی کڑی نگرانی کر کے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ورنہ پہلے کی طرح یہ فنڈز بھی عہدیدار کھا جائیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن

قیدی 804 سسٹم کیلئے ناگزیر! 

لقمان شیخروبروبازی گر معروف انڈین ادا کار شاہ رخ خان کی فلم ہے. اس فلم میں انکا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا. '' ریس میں کوئی جیت ...