خالہ جان بھی رخصت ہو گئیں

وہی دکھ، وہی تکلیف جو اپنی امی جان کی جدائی کے وقت تھی آج ویسا ہی درد تکلیف 17 سال بعد خالہ کی جدائی پر محسوس ہوا ۔جب سے ہوش سنبھالی ہے انہیں دیکھا ہے ۔ہمیشہ ماں جیسا پیار ملا ۔پا نچ وقت کی نمازی ،قرآن کی تلاوت کرنا روز کا معمول تھا اور بیماری میں بھی روزہ کی پا بندی ان کا وطیرہ تھا 93 سال کی عمر میں رواں ماہ نویں محرم کو خالق حقیقی سے جا ملیں ۔انکو شوگر بلڈ پریشر اور کینسر جیسی موذی بیماریوں سے کبھی واسطہ نہیں پڑا ۔ ہر کسی کی خوشی غمی میں شریک ہوتی تھیں ۔ زندگی میں اپنی ماں اپنے باپ اپنے بھائیوں بہنوں کی بچوں کے والد اور جواں بیٹے طاہر خان کی وفات جیسے دکھوں کا سامنا کرتے گزارا ۔ بچپن کا کچھ حصہ میری امی کے ساتھ آزاد جموں کشمیر میں گزرا جب والد محترم کی پوسٹنگ بطور ذیلدار ہوئی۔اکثر ہمیں اپنے بچپن کی یادیں سنایا کرتیں ۔ خالہ جان میری امی سے چھوٹی تھیں باقی سب بہن بھائیوں میں بڑی تھیں ۔ جب جنازہ ہوا تو یوں لگا کہ سارا شہر ریلوے گراؤنڈ میں امڈ آیا ہو ۔ عید گاہ کے پیر نقیب الرحمن نے نماز جنازہ پڑھایا ۔پھر دعا کے بعد قبر کی جانب روانہ ہوئے ۔ میت اٹھانے سے لیکر قبر میں اتارنے تک اسی طرح ہم تینوں بھائی بھی ساتھ ساتھ رہے جیسے اپنی والدہ کے الوادع کرتے ہوئے آخری لمحے تک ساتھ تھے ۔ چہرہ قبر میں اتارنے کے بعد بھی دیکھا ایسا پرسکوں پر
نور چہرہ جیسے ابھی سو رہی ہوں ۔ وہ دل کی سخی ، مثالی مہمان نواز تھیں ۔ہمیشہ نوکروں کو گھر کا فرد سمجھا، نرم لہجے میں بات کرتیں ۔ ان کے بڑے صاحبزادے
جاوید آصف خان چالیس سال سے فیملی کے ساتھ امریکہ میں مقیم ہیں ۔ اکثر پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں ۔اس بار جب امی کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو پاکستان آئے ۔ اس وقت ماں بیماری کی حالت میں خاموش تھیں۔ خوراک کی نالی لگی تھی ۔ فوت ہونے سے دو روز قبل ہوش میں آئیں ۔سب کو پہچانا ۔بیٹے جاوید خان نے پوچھا میں کون ہوں ؟کہا میرا بیٹا جاوید ہے ۔ ساتھ ہی مسکراہٹ بھی دیں ۔اس کے بعد پھر خاموش ہی رہیں َان کے تمام بچوں نے اپنی والدہ کی خوب خدمت کی خاص کر چھوٹے بیٹے خان ناصر خان سابق مشیر صدر آزاد کشمیر ہر وقت سرہانے بیٹھا رہا ۔ایسا ہی حال جاوید خان کا تھا جب سے امریکہ سے آئے ہر وقت امی کے پاس رہے ۔ ایک ایک لمحہ ماں کی خدمت میں گزارا ۔ اکثر ہر سال نوری سپتال میں کینسر ڈے کے موقع پرمیںمریضوں سے کہتا ہوں کہ بیماریوں کا موت سے کوئی تعلق نہیں یہ بیماریاں خدا کے قریب لانے کا بہانہ ہیں گناہوں کو کم کرنے اور بخشنے کا زریعہ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس دنیا کو چھوڑنے سے قبل مختلف بیماریوں کا سامنا لوگ کرتے ہیں کیونکہ وہ ذات چاہتی ہے کہ میرا بندہ میرے پاس سب کچھ بخشوا کر آئے ۔ وہ ذات بڑی غفور الرحیم ہے ۔وہ بیماریوں کو بخشش کا سبب بناتی ہے ۔ یہ ہمارا نہیں قدرت کا نظام ہے۔ ایک صحابی رسول کی شادی کو ایک سال کا عرصہ گزرا ۔ ان کی زوجہ محترمہ نے کہا مجھے آپ کے ساتھ نہیں رہنا، طلاق دیں طلاق کی وجہ نہ زوجہ نے بتائی اور نہ ہی صحابی نے اس کی بابت پوچھا لیکن صحابی طلاق کی بات ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ اسی دوران ایک روز جب وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لئے گئے تو کھائی میں جا گرے جس سے انکی ٹانک ٹوٹ گئی ۔ جب گھر پہنچے تو زوجہ نے پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھا ۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ مکمل صحت یاب ہو گئے ۔انکا کہنا تھا کہ وہ اب تمہاری خواہش کو پورا کر نے کیلئے تیار ہیں ۔ زوجہ نے کہا میرے پیارے سرتاج اب تو دعا ہے اور دلی خواہش ہے کہ ساری عمر اب آپ کے ساتھ گزرے ۔ صحابی نے پوچھا اب کیوں اورپہلے ایسا کیوں نہیں تھا۔
بتایا جب سے شادی ہوئی ہے آپ کو نہ تو کبھی بخار ہوا ہے نہ کبھی چوٹ لگی ہے ۔ مجھے یوں لگا جیسے خدا آپ سے ناراض ہے سوچا ایسے شخص کے ساتھ زندگی کیا بسر کرنی جس کا رب ا س سے راضی نہ ہو ۔اب جب مجھے خدمت کا موقع ملا تو میں سمجھ گئی کہ آپ اس ذات کے قریب ہیں ۔ اب میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہی زندگی بسر کروں گی ۔لہذابیماریوں سے گھبرایا نہ کریں ۔با نو قدسیہ کہا کرتی تھیں کچھ لوگ شفا جیسے ہوتے ہیں بات کرتے ہیں تو تسکین ملتی ہے اور لفظ کہتے ہیں تو مرہم جیسے لگتے ہیں ۔ کچھ لوگ صرف لوگ نہیں ہوتے وہ ہمارا علاج بھی ہوتے ہیں سکون بھی ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی خوبیوں کی مالک میری خالہ تھیں ، انسان کے بس میں کچھ نہیں اگر انسان کے بس میں ہوتا تو وہ اپنے والدین ، بہن ، بھائی، خالہ ، ماموں، چچا، تایا ، پھوپی کو اس جہان فانی سے جانے سے روک لیتا ۔ یہ سچ ہے جانے والوں کو کہا روک سکا ہے کوئی ۔وہی ذات اپنے پیاروں کو قبر میں اتارنے کا حوصلہ اور ہمت دیتی ہے ۔ جوں ہی قبر پر مٹی ڈالتے ہیں ہمیں سکون اور اطمیان کی دولت مل جاتی ہے۔پھر کل گیا آج دوسرا دن !!