چند روز قبل کراچی کے مسائل بالخصوص نالوں کی صفائی کے حوالے سے لکھے گئے کالم میں صوبائی حکومت، تمام سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ گذشتہ روز اس حوالے سے سپریم کورٹ نے اہم حکم جاری کرتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو گندے نالوں کی صفائی کا حکم جاری کیا ہے۔ اس حکم نے صوبائی حکومت اور سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انتہائی اہم مسئلے پر سندھ کے حکمران اور اپوزیشن کے سیاستدان مسلسل بیان بازی کرتے رہے، میڈیا کا اہم وقت پریس کانفرنسوں میں ضائع کرتے رہے، سیاسی حملے کرتے یا ان کا جواب دیتے رہے۔ اس دوران سیاست دانوں کی ساری توانائیاں ایک دوسرے کو غلط، جھوٹا اور نااہل ثابت کرنے پر صرف ہوتی رہیں۔ بیانات چلے رہے اور عوام گرمی میں جھلستے اور شہر ہی سڑکوں پر کھڑے پانی میں خوار ہوتے رہے۔ جمہوریت کے چیمپیئن بیانات جاری کرنے کے ریکارڈ قائم کرتے رہے لیکن عوام کے مسائل حل کرنے پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ تنگ آ کر وفاقی حکومت نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو ذمہ داریاں دیں۔ اب سپریم کورٹ آف پاکستان نے این ڈی ایم اے کو کراچی کے تمام نالوں کی صفائی اور سندھ حکومت کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آگے چل کر این ڈی ایم اے کو مزید ذمہ داریاں دیں گے۔ این ڈی ایم اے کراچی میں تجاوزات سمیت دیگر مسائل حل کرنے کی ذمہ داری بھی دی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں اڑتیس بڑے نالے اور پانچ سو چودہ چھوٹے نالے ڈی ایم سیز کے پاس ہیں جبکہ تین بڑے نالوں کی صفائی پر این ڈی ایم اے کام کررہی ہے۔چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے مکالمہ کیا کہ آپ کچھ نہیں کر پائے ہیلی کاپٹر پر چکر لگا کر واپس آجاتے ہیں۔
کراچی ملک کا معاشی مرکز ہے، یہاں کبھی پانی نہیں ملتا اور کبھی پانی نکالا نہیں جاتا، کبھی زندگی بچانی مشکل ہوتی ہے تو کبھی لاش ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے، کبھی اپنے پیاروں سے ملنا مشکل ہوتا ہے تو کبھی کاروبار بچانا مشکل ہو جاتا ہے، بجلی آتی نہیں اور اگر بجلی آتی ہے تو کرنٹ لگنے سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے بڑے مسائل کے باوجود جمہوریت کے نام نہاد علمبردار اچھل کود کرتے رہتے ہیں۔ کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکے، شہر میں زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی ہے لیکن کسی نے کچھ نہیں کیا۔ جب صوبائی حکومت کچھ نہیں کر سکی تو وفاق کو مداخلت کرنا پڑی اور اب بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ایکشن لیا ہے تو نظر آ رہا ہے کہ شہر کے ساتھ کتنا ظلم کیا گیا ہے۔ ہمیں کشمیر پر ہونے والا ظلم نظر آتا ہے لیکن جو ظلم اپنے حکمرانوں نے کراچی کے ساتھ کیا ہے وہ کسی بھی طرح کشمیر میں ہونے والے مظالم سے کم نہیں ہے۔ اگر سیاسی حکومت یہ مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو کامیابی ضرور ملتی اور کسی کو مداخلت بھی نہ کرنا پڑتی۔ یہ صورت حال صوبائی حکومت کے دعوؤں کی نفی ہے۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کے مشکور ہیں کہ انہوں نے شہر قائد کے رہنے والوں کو درپیش اہم مسائل پر نوٹس لیا ہے امید ہے کہ دیرینہ مسائل حل ہوں گے۔
دور جدید کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے کوئٹہ، کراچی، پشاور اور لاہور کو وفاق کے زیر اثر ہونا چاہئے اور ان سب شہروں کو ترقی کے لیے ایک سے وسائل مہیا کیے جانے چاہئیں۔ ماڈل سٹیز کے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے یہ کام ان شہروں سے شروع ہونا چاہیے۔ ایسے منصوبوں پر کام کرنے سے ناصرف ملک میں اسلام آباد جیسے جدید شہروں میں اضافہ ہو گا بلکہ اس سے ملک ترقی کے نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے اگر یہ چاروں شہر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھتے ہیں تو ترقی کا سفر نواحی علاقوں میں بھی پھیلے گا وفاق مضبوط ہو گا۔ اتحاد کے نئے راستے کھلیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان چار بڑے شہروں کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
کبھی وقت تھا کہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں امام صحافت آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کی زندگی میں یوم آزادی نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا تھا آزادی کے مہینے میں خاص تقریبات کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ حکمران ایسی تقریبات میں شرکت کو اعزاز سمجھتے تھے لیکن نظامی صاحب کے انتقال کے بعد یہاں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ تقریبات کے انعقاد میں کمی سے سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں اس کمی سے نظریہ پاکستان کے حوالے سے ہونے والا کام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ ان سرگرمیوں کو بحال کرنے اور امام صحافت جناب مجید نظامی کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ہم تین صوبائی وزراء فیاض الحسن چوہان، حافظ ممتاز احمد اور چودھری اخلاق احمد کو لے کر نظریہ پاکستان ٹرسٹ پہنچے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما چودھری اقبال اور ڈاکٹر امجد ثاقب بھی اس تقریب کا حصہ تھے۔ شاہد رشید نے مختصر وقت میں اچھے انتظامات کر لیے تھے۔
صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ میرا بلڈ گروپ اے بی پازیٹیو ہے نہ نیگیٹو بلکہ میرا بلڈ گروپ تو پی فار پاکستان ہے۔ پاکستان کو ترقی کرنی چاہیئے۔ ملک کی ترقی کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مہینے میں ہمیں اپنے بزرگوں ہی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اپنی خامیوں کو بہتر کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ موجودہ حالات میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا کردار نہایت اہم ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کے لیے اس ادارے کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ حافظ ممتاز احمد کا کہنا تھا کہ آزادی کے لیے ہمارے بزرگوں نے ان گنت قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کو زندہ رکھنے اور اس علم کو نوجوان نسل تک پہنچانے کے لیے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ہمیں اس کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی حفاظت کے لیے متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چودھری اخلاق احمد کا کہنا تھا کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں تو یہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ بزرگوں نے ہمارے لیے جان و مال قربان کیا اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم نے آنے والی نسلوں کو پر امن، محفوظ، ترقی یافتہ ملک دینا ہے۔ علیحدہ ملک کی ضرورت کیوں پیش آئی اس حوالے سے دو قومی نظریے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو اس حوالے سے فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ چودھری اقبال نے کہا کہ یہ ملک ہمارے پاس امانت ہے اگر اس میں امن قائم نہ ہو، خوشحالی نہ ہو، روزگار کے مواقع نہ ہوں، غربت ہو، نوجوان بے چین ہوں، بھوک افلاس ہو تو یہ امانت میں خیانت ہے۔ دو قومی نظریے کے فروغ اور ترویج و ترقی کے لیے کام کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کہتے ہیں کہ آزادی کی قدر ان سے پوچھیں جو اپنا سب کچھ لٹا کر بے سرو سامانی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔ آج ہم بغیر مقصد کے زندگی گذار رہے ہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ اس ملک کی ترقی اور مسائل حل کرنے کے لیے اپنی اپنی حیثیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنا حصہ ڈالیں۔ نوجوان نسل کو علم ہونا چاہیے کہ الگ وطن کی ضرورت کیوں پیش آئی، کیوں ہمارے آباؤ اجداد نے الگ وطن کے لیے قربانیاں دیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز آٹے کی قلت ہے حوالے سے تسلیاں دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں وہ عوام کو بتا رہے ہیں کہ وزیراعظم اس حوالے سے ہر ہفتے اجلاس بلاتے ہیں، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چینی کے اسٹاک کم ہونے ہر بھی تشویش ہے جبکہ گندم کا جہاز چوبیس اگست کو پاکستان پہنچے گا تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ کاش کہ وزیر موصوف یہ بتاتے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں، وزیراعظم ہر ہفتے اجلاس بلاتے ہیں لیکن کیا اس اجلاس کا فائدہ عوام کو ہوتا ہے، قیمتوں میں کمی ہوتی ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم کو اس حوالے سے مسلسل مس گائیڈ کیا جاتا ہے، انہیں حقائق نہیں بتائے جاتے، اعدادوشمار میں بھی ہیرا پھیری کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اجلاسوں کی تعداد تو بڑھ رہی ہے لیکن عوام کو فائدہ نہیں ہو رہا۔ گندم چینی کے جتنے مرضی جہاز منگوا لیں قیمتیں کم کرنا اب حکومت کے بس میں نہیں رہا، گندم کی قلت کو کم کرنے کے لیے صوبوں میں نقل و حرکت پر نظر رکھیں، بارڈرز بند کریں، پھر سمگلنگ روکیں یہ جو جہاز آ رہا ہے یہ بھی سمگلنگ کی نذر ہو جائے گا۔ قیمتوں کو کم کرنے کے لیے ڈیمانڈ و سپلائی کے طریقہ کار کو سمجھیں کچھ سمجھ نہ آئے تو اپنی ٹیم سے کہیں کہ گذشتہ ایک سال کے سائرن کی تفصیلات آپ کو بھجوا دیں یقیناً کئی مسائل حل ہو جائیں گے۔
خواتین صحافیوں نے حکومت پر تنقید کے بعد آن لائن ہراساں کیے جانے کے خلاف مشترکہ بیان میں حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانا یا ہراساں کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد جرنلسٹ پروٹیکشن بل پر کام کروائیں۔
یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ یہ مسئلہ وفاقی وزراء کی حد تک نہیں رہنا چاہیے بلکہ وزیراعظم عمران خان کو اس کا نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دینا چاہیے۔ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقت سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام میں مکمل آزادی ملنی چاہیے اور صحافیوں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024