حاضر ہو…!
خزانہ کے سابق وفاقی وزیر سینیٹر اسحاق ڈار سینٹ سے، جبکہ داخلہ کے سابق وفاقی وزیر چودھری نثار 2018ء کے جنرل الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست جیت جانے کے بعد سے اب تک پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں سے مسلسل غیر حاضر ہیں۔ نمائندگی ایکٹ کے تحت دونوں معزز ممبران کو سینٹ اور پنجاب اسمبلی کے منعقدہ تمام اجلاسوں میں موجود ہونا چاہیے، تاہم وہ مسلسل غیر حاضر پائے گئے ہیں۔ چودھری نثار نے تو ابھی تک ممبر صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے حلف بھی نہیں اٹھایا۔ دونوں ممبران گزشتہ کئی ماہ سے سے لندن میں مقیم ہیں۔ اسحاق ڈار کو عدالتی مفرور قرار دیا جا چکا ہے جبکہ چودھری نثار علاج کی غرض سے فیملی کے ہمراہ برطانیہ میں اقامت پذیر ہیں۔ کیا سینٹ اور پنجاب اسمبلی سے مسلسل غیر حاضری کے باعث دونوں معزز ممبران اپنی سینٹ اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں کھو سکتے ہیں۔ اس پر کافی بحث بھی ہو رہی ہے اور قانونی نکات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس ساری کہانی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ چودھری نثار نے ابھی تک اپنے صوبائی عہدے کی ممبرشپ کا حلف نہیں اٹھایا۔ ایسی صورت میں کیا اُن کی ممبر شپ برقرار رہ سکتی ہے۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو وضاحت طلب ہے۔ جبکہ اسحاق ڈار نیب کے کیسز کے باعث ملک سے راہِ فرار اختیار کر کے اس وقت برطانیہ میں مسلسل کئی ماہ سے اپنی فیملی کے ہمراہ مقیم ہیں۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ نا تو چیئرمین سینٹ اور نا ہی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اس ضمن میں کسی کارروائی کا آغاز کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے چند ارکان صوبائی اسمبلی اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہٰی کو تحریری طور پر یہ لکھ کر دے چکے ہیں جس میں اعتراض اٹھایا ہے کہ حلف نہ اٹھانے کی صورت میں چودھری نثار کی ممبرشپ منسوخ کی جائے اور یہ کہ اُن کی نشست کو خالی قرار دیا جائے۔ جبکہ اس سیٹ کو ’’ڈی نوٹیفائی‘‘ کرنے کا آئینی اختیار صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ البتہ اسپیکر انہیں صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے ’’ڈی نوٹیفائی‘‘ کرنے کی سفارش کر سکتے ہیں۔اسحاق ڈار کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ انہوں نے سینیٹر کی حیثیت سے سینٹ میں حلف اٹھایا ہوا ہے لیکن اپنے عہدے کی مناسبت سے سینٹ میں اُن کی نمائندگی نہیں۔ اپنی عدم موجودگی کے حوالے سے انہوں نے چیئرمین سینٹ کو بھی آگاہ نہیں کیا ، چھٹی یا رخصت کی کوئی درخواست بھی نہیں دی۔ اب یہ چیئرمین سینٹ پر منحصر ہے کہ اگر کوئی سینیٹر سینٹ کے اجلاس سے مسلسل غیر حاضر رہتا ہے، ایوان بالا کی کارروائی میں حصّہ نہیں لیتا، نہ ہی اُس کی جانب سے اپنی عدم حاضری کی وجوہات کے حوالے سے کوئی آئینی راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو چیئرمین سینٹ کا اختیار ہے کہ وہ اس عدم حاضری کے باعث ممبر سینٹ کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرے، جواب نہ آنے، یادلچسپی ظاہر نہ کرنے پر چیئرمین سینٹ کو یہ کُلّی اختیار ہے کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آگاہ کرے کہ ان ناگزیر وجوہ کی بناء پر فلاں رُکن سینٹ کی رکنیت منسوخ کر دی جائے۔ اس کارروائی کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اختیار شروع ہو جاتا ہے کہ وہ متعلقہ رکن سینٹ کو نوٹس جاری کرے کہ اصالتاً یا وکالتاً وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آگاہ کرے کہ وہ سینٹ سے کیوں غیر حاضر یا عدم ِ دستیاب ہے۔ جواب نہیں آتاتو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس سیٹ کو ’’ڈی نوٹیفائی‘‘ کر دے۔ سیٹ کو خالی قرار دیکر دوبارہ الیکشن کا حکم صادر کرے۔ جہاں تک آئین پاکستان کا تعلق ہے تو انگریز کے وقت سے ہی ہمارا بھی وہی آئینی ڈھانچہ ہے جو برٹش آئین میں تحریر ہے۔ جس کے تحت برطانیہ اور غیر منقسم ہندوستان کا نظام چلایا جاتا تھا۔ لیکن جب تقسیم ہند ہوئی پاکستان وجود میں آیا تو اس برٹش آئین میں ترامیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1971ء کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا انقلابی نعرہ لیے برسراقتدار آئی تو پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم بنتے ہی آئین پاکستان پر شریف الدین پیرزادہ اور دیگر سینئر وکلاء کی ٹیم کے ہمراہ کام شروع کیا۔ 1973ء میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آراء اور حمایت سے متفقہ طور پر 1973ء کا آئین پاکستان تیار اور منظو کر لیاگیا۔ گو کہ یہ برٹش آئین کی نئی شکل تھی، لیکن یہ جاری و ساری ہو گیا۔ تاہم اس میں کافی خلاء رہ گئے۔ ممبران سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کی ممبرشپ کے حوالے سے بھی اس میں حد سے زیادہ خلاء موجود ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسے ابہام پیدا نہ ہو سکیں۔