یومِ تجدیدِ وفا
یارب میرے پاک وطن کو جنت کی تصویر بنا
بن جائے یہ بات ہماری یوں بگڑی تقدیر بنا
قیام پاکستان دنیائے عالم میںایک معجزہ تھا۔ اسی معجزہ کا ظہور قائداعظم محمدعلی جناح کی شب وروزکی انتھک کوششوں سے ہوا۔ وہ جس لگن اور جستجو کے ساتھ مسلمانوں کیلئے آزاد وطن کی آرزو لیے چل رہے تھے اس راستے پہ انہوںنے اپناتن من اور دھن سب کسی بھی صلہ سے بے نیاز ہوکر لٹادیا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 14اگست1947ء کا دن ہمارے لیے تکمیل کا فقط ایک وہ لمحہ تھا جس میں ہم منزل پہ آن کھڑے ہوئے تھے مگر اس منزل کیلئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہے
آزادی کسی بھی قوم کا افتخار اور قیمتی اثاثہ ہوتی ہے یہی اثاثہ اس قوم کی سربلندی کا ضامن اور توقیر کا باعث ہے۔ آزادی ایک حقیقت ہے۔ کسی بھی آزادی کے ساتھ قربانیاں، خون آلود لاشیں، یتیمی، بے سروسامانی، بھوک، افلاس، ننگ، بیماری، بربریت، چیختی ہوائیں، بین کرتی مائیں، بلکتے سسکتے بچے اور ظلم کی بے بہا داستانیں جڑی ہوتی ہیں۔اسی لیے ان تحریکوں کا تعلق حساس ادیبوں اور خون میں ڈوبی ہوئی تحریروں سے جڑ جاتاہے۔ کسی بھی تحریک کا اثر ادب پہ گہرا اثرہوتاہے، انسانیت کی تذلیل، ذات پات، رنگ ونسل کا امتیاز مذہب اور خارجی و داخلی افکار پہ تنقید اور پابندی اس معاشرے کے ادیب کے فن کو بے چین کردیتی ہے۔آزادی کی جنگ، حقوق کی جنگ، سرحدوں کی جنگ ہوتو ایسے میںایک شاعر ساحرلدھیانوی لکھتے ہیں کہ…؎
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کے اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
یاد رکھئے کہ جب کوئی بھی معرکہ عروج پہ پہنچ جائے توجذبہِ لاثانی نئی تاریخ کا موجب بن جاتا ہے۔ جب ہم نے اپنی بقاء کی تمام ذمہ داریاں خود سنبھالنے کا ارادہ کرلیا تو اللہ نے ہماری قسمت میں پاکستان لکھ دیا۔ گوکہ یہ مشکل مرحلہ تھا۔ ہندوئوں اور سکھوں کی بربریت ، مسلمانوں کے نہتے قافلے، بیل گاڑیوں کی قطاریں اور ٹرین پہ سوار اصل منزل کی جانب بے گھر افراد مگر ان کے اندر کارفرما جذبہ سورج کی ان کرنوں کو طلوع ہوتے دیکھ رہا تھا جسے آزادی کہتے ہیں۔جب ہندوئوں نے مسلمانوں کے قافلوں کی خون کی ندیاں بہائیںتو فرزندان دین وحق پاکستان نے کہا کہ جو خون کی ندیوں پرتیرتے ہوں ان کو موت سے کوئی نہیں ڈرا سکتا۔ اس وقت ہر کوئی قائداعظم محمدعلی جناح کی سربراہی میں یہی سوچ رہا تھا کہ ہمیں کچھ ایسا کرنا ہے جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے۔ پھر 14اگست1947ء کی تاریخ بروز جمعہ27رمضان کا یہ یوم استقلال، یوم آزادی سنہرے حروف میں مورخین نے لکھ دیا۔ آج73ویں یوم آزادی پہ بہت دل چاہتا ہے کہ ہم اپنی ترقی، تعلقات، سیاست اور معیشت پر سیر حاصل گفتگو کریں اوروہ بے شمار عوامل جو پاکستان کے وجود کا سبب بنے ان کو زیر بحث لائیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ تضادات کے علاوہ وہ داخلی اور خارجی عوامل جنہوں نے پاکستان پہ مسائل کی بمباری کررکھی ہے ان سے کیسے نبردآزما ہوا جاسکتاہے اس کیلئے ہمیں مل بیٹھ کر سوچنا لازمی ہے۔ہمارے ساتھ جو سب سے بڑا سانحہ قیام پاکستان کے بعد ہوا وہ قائداعظم محمدعلی جناح کا ہمیں داغ مفارقت دے جانا تھا۔ ہر پاکستانی کو اس بات کا یقین ہے کہ اگر قائداعظم محمدعلی جناح کو چند سال اور مل جاتے تو آج جس طرح پاکستان کی آئینی بنیادیں کمزور ، معیشت تباہ حال، فرقہ واریت کا عروج، سیاست کے سٹیج پہ کٹھ پتلیوں کے تماشے ،تعلیمی نظام میں تہذیب تاریخ اور مذہب کے ساتھ بے اعتنائی برتی جارہی ہے ہم ان مسائل سے نمٹنے کیلئے اپنی بنیادیں مضبوط کرچکے ہوتے اور وطن کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے تمام راستوں پر قائداعظم محمدعلی جناح کی ذہانت ، قابلیت اور سیاسی بصیرت کی بناء پر اپنی راہیں متعین کرچکے ہوتے۔راقمہ کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم جن راہوں پہ چل رہے ہیں اس طرح ہم اپنے اسلاف کی قربانیاں ضائع کردینگے۔ ہماری آزادی کی روشن صبح ہمارے عزم واستقلال اور علم کی آب وتاب سرزمین پاک پہ لہو کے قطروں کی سیرابی سے، پاک افواج کے نعروں سے اورہمارے سپاہیوں کے بوٹوں کی دھمک سے اسلامی جمہوریہ پاکستان انشاء اللہ ہرمشکل اورہر امتحان سے گزر جائیگا۔ جو کل تھا وہ آج نہیں ہے جو آج ہے وہ کل نہیں رہے گا۔ حکومت پاکستان اور دیگر ادارے باہمی محبت ویگانگت سے اگر ان قربانیوں کو یاد رکھیں تو آج نہیں توکل پاکستان کا تبدیل ہوا نقشہ اور بھی وسعت پذیر ہوجائے گا انشاء اللہ