موت کا سودا گر مرگیا
اس کا شمار سکول کے لائق بچوں میں ہوتا تھا صرف بیس سال کی عمر میں اسے ملکی زبان کے علاوہ انگلش ،جرمن، فرانسیسی اور دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل ہو چکا تھا وہ پہلے فرانس پھر امریکہ پڑھنے کیلئے گیاوہ شروع سے ہی دھماکا خیزمواد میںگہری دلچسپی لیتاتھا ۔1867میں وہ ایک محفوظ قسم کا ڈائنا مائیٹ بنانے میں کامیاب ہو گیا اور پھر 1876میں اس نے ڈائنا مائیٹ سے بھی زیادہ محفوظ Explosive، gelignite(گیلگنا ئیٹ) بنا لیا جو کہ مائننگ (mining) کیلئے بہت ہی کارگر ثابت ہوا اس پر کامیابیوں کے دروازے کھل گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسلحہ ساز فیکٹریوں کا مالک بن گیا .جی ہاں!یہ کو ئی اورنہیں بلکہ۔ الفریڈ نوبل (Alfred Nobel) تھا۔وہ اسلحہ سازی کی صنعت و تجارت کابے تاج بادشاہ بن گیا ۔وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کی دھن میں مگن تھا کہ ایک دن اچانک ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس نے اسکی زندگی میں تہلکہ مچا دیا ۔
ہوایوں کہ 1888میں الفریڈ نوبل کا بھائی لڈ رگ (Ludrig)انتقال کر گیا فرانس کے ایک اخبار کو یہ غلط رپورٹنگ ہوئی کہ الفر یڈ نوبل فوت ہو گیا ہے لہذا اس اخبار نے غلط فہمی کی بنیاد پر لڈرگ کی بجائے الفریڈ کی کی موت کی خبر لگا دی ۔الفریڈ نوبل کیلئے اپنی موت کی خبر اتنی پریشان کن نہیں تھی جتنی کہ اخبار کی وہ سرخی جس نے اسکے احساسات و جذبات کے درودیوار کو ہلا کے رکھ دیا تھا اسکے الفاظ کچھ یوں تھے :
The Merchant of Death is dead
’’موت کا سودا گر مرگیا ـــــ‘‘
اپنے بارے میں اسطرح کے مکروہ خطاب کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا و ہ تو اسلحہ سازی کو ایک کاروبار کے طور پر کر رہا تھا اپنے کاروبار کے اس گھنائونے پہلو کی طرف تو اس کا کبھی دھیان بھی نہیں گیا تھا ۔اپنے بارے میں اس قسم کی رائے کو وہ برداشت نہ کرپایا ۔مگر نہ ہی تو اس نے اس اخبار کے خلاف ہتک عزت کا دعوی کیا اور نہ ہی اس نے اپنی دیانتداری اور بے گناہی کی قسمیں کھائیں ۔اورنہ ہی اس نے خود کسی فورم پر آکر اپنے ابا جی کی محنت سے بنائی گئی فیکٹریوں کا حوالہ دیا ۔ جبکہ نہ تو اسکا کا روبار غیر قانونی تھا اور نہ ہی وہ ٹیکس چور تھا ۔نہ ہی اس پرغیر ممالک میں مہنگی ترین جائیداد یں خرید نے کا الزام تھا اورنہ وہ اپنے ملک کی غریب عوام کی دولت لوٹنے کا مرتکب ہوا تھا ۔پھر وہ موت کا سودا گر کیونکراور کیسے؟ لہذا وہ ان الفاظ پر اس اخبار کا خلاف دعوی کر کے بھاری رقم وصول کر سکتاتھا اوراپنے لئے عوام کی ہمدردیاںبھی سمیٹ سکتا تھامگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔بلکہ ا س نے اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔اس لئے کہ اسکا ضمیر زندہ تھا مرا نہیں تھا اور وہ ابھی انسانیت کی منزلوں سے گرا نہیں تھا ۔وہ داغدار نہیں تھا ۔پھروہ یہ داغ کیسے برداشت کر سکتا تھا ؟وہ مجر م نہ ہو کر بھی اپنے آپ کو انسانیت کا مجر م تصور کرنے لگا تھا لہذا اس عظیم انسان نے ایک عظیم فیصلہ کیا ۔ اس نے اپنی سوچوں کا رخ اسلحہ سازی کی بجائے انسانیت سازی کی طرف موڑ دیا اور اپنی تمام جائز و قانونی دولت دنیامیں انسانیت کیلئے بہترین کام سر انجام دینے والوں کیلئے وقف کر دی۔اور آج الفر یڈ نوبل کا قائم کر دہ ــ نوبل ایوارڈ دنیا کا سب سے اعلی ،سب سے زیادہ قدر و منزلت کا باعث سمجھا جانے والا ایوارڈ ہے ۔
انگلش شاعر John Keats (جان کیٹس) نے کہا تھا :
A man lives in deeds not in years
ـ’’انسان اپنے کاموں میں زندہ رہتا ہے نہ کہ سالوں میں ‘‘
اگر ہم اپنے موجودہ تمام سیاسی قائدین پر ایک نظردوڑائیں جو کہ کئی باراس ملک کے حکمران رہ چکے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا ہے جس پر کرپشن ،اقرباپروری اور قومی خزانے کو لوٹنے کے الزامات نہ لگے ہوں،صرف الزامات نہ لگے ہوں بلکہ وہ مجرم بھی ثابت ہوا ہو،تو کیا اس کا ضمیرجاگاَ؟اگر ایک لمحے کو یہ مان بھی لیاجائے کہ ان پر لگے سارے الزامات جھوٹے ہیںاور وہ دودھ کے دھلے ہیںتو کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ وہ سب ارب پتی ہیں۔اور اگر یہ ارب پتی ہیں اور انکے سینے میں غریبوں کا دکھ درد بھی بھرا پڑاہے تو کیاان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی دولت کا کوئی ایک حصہ بھی اس ملک کی کے بلکے سسکتے عوام کے نام کیاہو؟ (جاری)