محمد اسماعیل انصاری
محمد اسماعیل انصاری پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے قصبہ شاہ جمال میں رہائش پذیر ہیں۔ 95سال کی عمر تک پہنچنے کے باوجود ان کی قوت سماعت بہت بہتر اور جسم بھی مضبوط ہے۔ قیام پاکستان کی کہانی محمد اسماعیل کی زبانی سینے’’میری پیدائش بھارتی ریاست پٹیالہ کے گاؤں کانجلا، تحصیل دھوری ضلع سنگرور میں 1922میں ہوئی ۔میرے والد صاحب مویشیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ ہم سے ایک بیوپاری مال لیکر کلکتہ جا کر فروخت کر دیتا تھا۔ میں نے چار جماعتیں پڑھیں جبکہ والد صاحب ان پڑھ تھے۔ میری قیام پاکستان سے قبل شادی ہو گئی تھی۔ ہمارے پنڈ میں تیس پینتیس گھرانے مسلمانوں کے تھے باقی زیادہ تر سکھ اور ہندو تھے۔ ہم اپنے روز مرہ کے معمولات میں مصروف تھے کہ اچانک ہی فضا میں خوف اور ڈر کا عنصر نمایاں ہونے لگا۔ جب ماحول میں تبدیلی آنے لگی تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کیلئے الگ وطن کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس سے کافی خوشی ہوئی۔ مگر علاقے کی صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ سکھ اور ہندوؤں کے تیور بدلتے جا رہے تھے۔ ماحول میں تبدیلی کی ہمیں بھنک ہو گئی تھی۔ اس لیے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڈ رہی تھی۔ ڈر اور خوف کے سائے مزید گہرے ہو رہے تھے۔ مسلمانوں پر زمین تنگ ہونے لگی تھی۔ اب سکھوں اور ہندوؤں نے باقاعدہ قتل عام شروع کر دیا تھا۔ آس پاس سے بھی قتل و غارت گری کی خبریں آ رہی تھی۔ مسلمانوں کے اکثر خاندانوں نے کشیدہ ماحول اور خوف کی فضا کو دیکھتے ہوئے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ قیام پاکستان سے تین ماہ قبل ہم رات کے وقت چپکے سے گاؤں کو چھوڑ کر پیدل بغیر سازو سامان کے انجان راہوں کے مسافر ہو گئے۔ اس وقت دو چار مسلمانوں کے گھرانے ایسے تھے جو علاقہ اور گھر نہ چھوڑنے پر بضد تھے۔ ہم نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے ہماری بات سنی ان سنی کر دی اور ہمارے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ جب ہم پانچ چھ کلو میٹر دور پہنچے تو پتہ چلا کہ سکھوں نے حملہ کر کے پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں کو گھر میں داخل ہو کر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ہم انجان راہوں کے مسافر ڈر اور خوف کے مارے رواں دواں تھے، ہمیں پتہ چلا کہ ریاست کے نوابوں (یہ نواب پاکستانی سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے رشتہ دار تھے) نے ایک کیمپ لگایا ہوا ہے جہاں پر مسلمانوں کو بحفاظت ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہم بھی اس کیمپ میں پہنچ گئے۔ ہم اس کیمپ میں تین ماہ تک رہے۔ نواب نے کیمپ کی حفاظت کیلئے بندے دیے ہوئے تھے جو اسکی حفاظت کرتے جس کی وجہ سے کسی کو کیمپ پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔ باقی خرچہ اور کھانا پینا ہر کسی کا اپنا ہوتا تھا۔ یہ انتہائی خوفناک اور مشکلات سے بھرپور دن تھے۔ آج بھی جب وہ دن یاد آتے ہیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ صرف کیمپ میں موجود مسلمان ہی محفوظ رہے باقی آس پاس میں اکثر مسلمانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ہم تین ماہ کیمپ میں رہنے کے بعد ٹرین میں پاکستان کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم سے پہلے روانہ ہونے والی ٹرین سکھوں اور ہندوؤں نے حملہ کر دیا اور اکثر مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ جب ہم دوسری ٹرین پر وہاں سے گزرے تو مسلمانوں کی لاشیں دیکھیں، یہ منظر ناقابل بیان ہے۔ لاہور کے قریب جب ہماری ٹرین پہنچی تو اس پر بھی حملہ کر دیا گیا مگر ہماری خوش قسمتی کہ پاک فوج نے موقع پر پہنچ کر ہماری جان بچائی اور ہم اپنے پیارے ملک کی سر زمین پر بالآخر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارے متعدد رشتہ دار انڈیا میں رہ گئے تھے جن سے کافی عرصہ بعد رابطہ ہوا اور اب ہم ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ نوزائیدہ پاکستان میں شروع شروع میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہوتے گئے۔ نوجوان نسل کو یہی کہوں گا کہ یہ ملک ان کی سوچ سے بھی زیادہ قربانیوں سے معرض وجود میں آیا ہے اس لیے اسکی اپنی جان سے بھی زیادہ حفاظت کریں اور اسکی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔