’’سبب کچھ اور ہے جِسے تو سمجھتا ہے‘‘
ابھی میں جناب امیر العظیم جنرل سیکرٹری پاکستان کے کالم کے بارے میں لکھ ہی پایا تھا کہ فرید پراچہ صاحب کا ’’جواب حاضر ہے‘‘ نظر سے گزرا۔ اس کے لیے بھی کچھ اس جواب کے ساتھ ہی لکھ رہا ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ سیکرٹری جنرل صاحب کے جوابی کالم کے بعد ، میرے کالم کے بارے فرید پراچہ صاحب کو جواب حاضر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی انہوں نے کس حیثیت میں اتنی تکلیف کی۔ ان کے حاضر جوابی سے معاملات سلجھنے کے بجائے اور اُلجھ گئے۔ انہوں نے نئے نقاط اٹھا دئیے جن کا جواب دینا ضروری ہو گیا ورنہ میں ان کی باتوں کو نظرانداز کر دیتا۔ اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی لیکن طنزاً انہوں نے میرے جماعت اسلامی کی رکنیت اختیار نہ کرنے کا سوال اُٹھا دیا۔ یہ ان کے جماعتی بچپن کا معاملہ ہے جب والد صاحب کی وفات کے بعد اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پنجاب نے مجھ سے رکنیت کا فارم پُر کرنے کا کہا، میرے اس بات کہنے کے باوجود کہ جماعت کے لوگ مولانا مودودی کے کسی بچے کو رکنیت اختیار نہیںکرنے دیں گے، انہوں نے فارم پُر کروا لیا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں نے محترم میاں طفیل محمد سے رکن بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جسے نظرانداز کر دیا گیا۔ اسعدگیلانی مرحوم نے بھی درخواست دینے کے دو ماہ بعد مجھ سے معذرت کر لی کہ تمہیںرکن نہیں بنایا جا سکتا۔ مجھے اس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ چونکہ میری رکنیت کا معاملہ فرید پراچہ صاحب نے اُٹھایا ہے اس لیے میں انہی سے درخواست گزار ہوں کہ جماعت کے ریکارڈ میں میری درخواست نکلوائیں اور دیکھیں کہ کس وجہ سے میری رکنیت پر اعتراض کیا گیا اور مجھے بھی اس سے مطلع کریں کہ رکن نہ بن سکنے میں میرا قصور کتنا ہے۔ یہ اس موقع پر بے محل نہ ہو گا کہ میرے بھائی حیدر فاروق کی رکنیت کی درخواست تو خود فرید پراچہ صاحب کے ہاتھوں سے گزر کر انکار رکنیت تک پہنچی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ دوبارہ اس بات کی ہمت نہیں کریں گے کہ ہم میں سے کسی بھائی یا بہن کی رکنیت کی درخواست منظور کروائیں۔ ہم آج کل کے رکنیت کے معیار پر تو کسی نہ کسی طرح پورے اُترتے ہیں اور اگر کوئی کمی ہو تو ہم اسے دور کرنے کیلئے تیار ہیں۔ جماعت اسلامی کے بننے اور مستحکم ہونے میں ہمارا خون پسینہ بھی شامل ہے اور مہم میں سے کوئی بھی اپنی آل اولاد سمیت جماعت کے مقصد وجود کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گا اور میں خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے تو مخالفین کی ناروا باتیں بھی ناقابل برداشت ہوتی ہیں جبکہ آپ جماعت کی مخالفت کے طعنے دینے میں تساہل نہیں کرتے۔
اس کے برعکس دیکھا جائے تو اکابرین میں سے فرید پراچہ صاحب کے بیٹے نے عمران کی تحریک انصاف کے ٹکٹ پر اور لیاقت بلوچ صاحب کے بیٹے نے مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا اور موجودہ امیر محترم سراج الحق صاحب بھی سینیٹر بننے کے لئے عمران خان کی عنایت کے ممنون ہیں۔ چند اکابرین کی جماعت اسلامی سے وفاداریوں پر سوال اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے 2018ء کے الیکشن میں جماعت کا معاہدہ عمران خان کے ساتھ نہ ہو سکا۔ اس کا خمیازہ جماعت کے ساتھ ساتھ قوم بھی بھگت رہی ہے۔
اس سے قبل ایک قومی الیکشن کے دوران محمد فاروق نے لاہور کی سیٹ کیلئے جماعت سے ٹکٹ کی درخواست کی۔ کہا گیا کہ انکی خدمات جماعت کے لیے کیا ہیں جس وجہ سے انہیں ٹکٹ دیا جائے۔ چند ارکان نے سوال اُٹھایا کہ جناب جاوید اقبال کو ان کی کن جماعتی خدمات کے بدلے میں ٹکٹ دیا گیا ہے تو کہا گیا کہ وہ علامہ اقبال مرحوم کے بیٹے ہیں تو ارکان نے کہا کہ محمد فاروق بھی سید ابو الاعلیٰ کے بیٹے ہیں تو محمد فاروق کو دور دراز کے شہری علاقہ سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس الیکشن کی نوبت ہی نہ آئی۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت تو اپنی جگہ موجود ہے۔
پراچہ صاحب نے گزشتہ مختلف امراء کے انتخاب کے موقع پر ووٹ نہ ڈالنے والے ارکان کے تناسب کا ذکر خود ہی کر دیا۔ کیا منور صاحب اس بات سے ناواقف تھے کہ ووٹ دینے میں کوتاہی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے پانچ ہزار ووٹوں کا تذکرہ کیا ، میرے خیال میں یہ ان ووٹوں کے علاوہ ووٹ ہیں جو گم کر دئیے گئے۔ یہ معاملہ منور حسن صاحب کی الوداعی تقریر کے بعد ہی سامنے آیا۔ جماعت کے اخبارات جسارت میں منور حسن صاحب کی یاد میں جو فرائڈے سپیشل شائع کیا گیا ، بھی اس بات کی بازگشت سے خالی نہیں۔ اس میں شاہنواز فاروق ، آصف محمود ، تاثیر مصطفی اور دیگر کالم نگاروںنے اس بات کا ذکر کیا ہے۔ محترم فرید پراچہ صاحب نے سول اور ملٹری آمریتوں کے مقابلے کا ذکر بھی کیا ہے اور قید و بند کی صعوبتوں کو جھیلنے کی بات کی ہے۔ یہ بات انہیں زیب نہیں دیتی۔ آمروں کی جیلیں اور پھانسی کی سزا تک کی صعوبتیں تو مولانا مودودی مرحوم اور ان کے باوفا رفقاء نے برداشت کی تھیں۔اس کے بعد تو کچھ لوگوں نے مراعات حاصل کیں۔ جنرل یحییٰ جیسے عیاش صدر کو امیرالمومنین اور اس کے دستور کو اسلامی دستور کہا گیا۔ دوسرے آمر جنرل ضثاء الحق کے دور میں وزارتیں قبول کی گئیں اور ان سے فائدے اٹھائے گئے۔
اب ایک طرف تو بینظیر کے بنائے ہوئے صدر فاروق لغاری کا جماعت سے اتنا انس اور محبت کہ پنجاب سکول کیلئے 50 لاکھ کا عطیہ دیا گیا اور وہ اس وقت کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے وصول کیا جسے آپ نے خود تسلیم کیا اور اسی پیپلزپارٹی کی صدر اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کی جماعت سے نفرت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ اس بنا پر پیپلزپارٹی جدہ کی شکایت پر کہ مولانا مودودی کے بیٹے عمر فاروق کو نیشنل بنک جدہ میں ملازمت کیوں دی گئی۔ اس وقت کے نیشنل بنک کے صدر سے وضاحت طلب کی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بینظیر کے عذاب کے نازل ہونے سے پہلے ہی عمر فاروق جدہ میں ہی‘ جناب صلاح الدین کے ذریعے ایک اور ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح برطرفی کی بجائے ان کے اعزاز میں مستعفی ہونا لکھا گیا۔ اس بات سے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جماعت کے ان افراد پر نوازشات‘ مولانا مودودی کی جماعت میں ہونے کے باوجود کیوں کی گئیں۔ یہ امر کئی پریشان کن سوال پیدا کرتا ہے۔
میں ایک دفعہ پھر مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ قائدین منصورہ اپنے اثاثوں کو ڈیکلیئر کریں اور جماعت کے ارکان اور عوام الناس کو بتائیں کہ جماعت میں شمولیت کے بعد ان کے اثاثوں میں اضافہ کے ذرائع کا اعلان بھی کریں۔
اپنی اس بات کے آخر میں فرید پراچہ صاحب کے اس فقرہ ’’سبب اور ہے جسے تو سمجھتا ہے‘‘ کے بارے میں (جسے میں نے اس کالم کا عنوان بھی بنایا ہے) یہ گزارش کروں گا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اگر میرے نزدیک کوئی ایسا معاملہ ہوتا تو میں کسی طورپر اس کا تذکرہ کرتا۔ اب انہوں نے خود ہی بات چھیڑ دی ہے تو اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ واضح کریں کہ اصل معاملہ کیا ہے۔
اور درخواست ہے کہ اگر وہ معاملہ کو سمجھتے ہیں تو اس کے عمل کیلئے دیانتدار اور مخلصانہ کوشش کریں۔ اس کے بعد میرا معاملہ صرف اسی حد تک رہ جائے گا جس کا حق ایک عام پاکستانی کو بھی حاصل ہے۔
میری اکابرین جماعت سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اپنے محسن و مربی سید مودودی کی اولاد اور جماعت کے درمیان موجود رنجشوں کو جن کی طرف فرید پراچہ صاحب نے ارشاد کیا ہے حل کروا دیں۔ ا س بارے میں ناچیز نے گزشتہ 20 سال سے حاضر اور مرحوم اکابرین سے مسلسل رابطہ رکھا ہے۔